بول کے لب آزاد ہیں

Lahore Motorway Rape Case

Lahore Motorway Rape Case

تحریر : شاہ بانو میر

کل مستنصر حسین تارڈ صاحب کی خوبصورت پوسٹ پڑہی
کہ
ہم ایسی قوم ہیں کہ
حادثے میں مظلوم کے بارے میں کوئی پردہ نہیں رہنے دیتے
دوسری طرف جو اصل مجرم ہے جس کے چرچے ہونے چاہیے
عدالت میں اسے پیش کرتے ہوئے پردہ ڈال دیا جاتا ہے
گو کہ ہم سب جانتے ہیں
حفاظتی نقطہ نگاہ سے ایسا کیا جاتا ہے
لیکن
ایسی کوئی اخلاقی حفاظتی چار دیواری اس آبلہ پا خاتون کیلئے بھی مقرر ہونی چاہیے
جو
ستم ظریفی سے اس ظلم کا نشان بنی سو بنی
لیکن
جتنے زخم اور تضحیک ہماری ان لمبی زبانوں نے سارا دن میڈیا پر بیٹھ کر
اپنے چیک لینے کیلیۓ بڑھ چڑھ کر اس پر رائے زنی کی ہے
اللہ اکبر
نہ موقعہ واردات پے موجود
نہ مجرم کی کسی نشاندہی کا علم
باقی سارے غم سارے مسئلے اس ملک کے جیسے حل ہو گئے
عوام ہے یا قائد حسب اقتدار یا حسب اختلاف
ہر جانب بات اس کیس کی
اور
ہمدردی کے بغیر صرف سیاست ہی سیاست
بے حس بے ضمیر لوگ
اس جاں لیوا موقعے پر بھی اپنی ترقی کا رونا رونے سے باز نہیں آئے
یہی ہے اس نیم مردہ قوم کا مردہ نظام
ٌموت کسی کے گھر ہو تو سن کر روایتی افسوس ہوتا ہے
موت جب اپنے گھر میں کسی عزیز کی صورت میت بنے
تو آنسو اور سسکیاں ابل ابل کر دکھ ظاہر کرتی ہیں
یہ سانحہ کیونکہ کسی کے گھر کو درگور کر گیا
لہٰذا
سارے دن میں بیکار گھنٹوں کی بحث ہمارا فرض ہے
ایک پروگرام میں بہت معنی خیز انکشاف ہوا
وہ یہ کہ
جب اس خاتون نے ہنگامی نمبر پر مدد کیلیۓ فون کیا
کہ
گاڑی کا پٹرول ختم ہو گیا ہے
تو
پوچھا گیا
ان کو کتنے پٹرول کی ضرورت ہے
خاتون نے کہا تھا
کہ
ایک ہزار کا کافی ہے
یہ ظالم واردات کے بعد گاڑی کے
ڈیش بورڈ پر ہزار روپیہ رکھ کر غائب ہو گئے
سوال یہ ہے
کہ
ایک اہم محکمے کی ہنگامی کال کس طرح انٹرسیپٹ ہو سکتی ہے؟
فریکوئنسی کا پتہ کیسے چلا ؟
کیا
یہ انتہائی تشویشناک بات نہیں ہے ؟
ملک میں منفی سوچ اور شارٹ کٹ سے راتوں رات امیر بننے کا رواج
ہر طرف مینہہ کی طرح برستی دولت دیکھ کر
نت نئی گاڑیاں بدیسی کھانے اور ڈیزائنر سوٹ
عام انسان کا جینا دو بھر ہو چکا ہے
ایک طرف دو وقت کی روٹی کے لالے اور دوسری جانب انبار
دوہرا نظام زندگی
جرائم کی بہت بڑی وجہ بن رہا ہے
مجرم جتنی بھی چالاکی دکھائے
ہر جرم کے بعد اپنے لئے
پھانسی کی رسیاں جھولتی چھوڑ جاتا ہے
ان جرائم کی بیخ کنی کیلئے
موجودہ غیر سنجیدہ اور اسلام سے کوسوں دور وزراء سے نہی
دینی علماء سے اسلام کی روشنی میں سزاؤں کو تجویز کرنا لازم ہو گیا ہے
سزاؤں میں من پسند یا ذہنی غلامی اور بیرونی خوف نہیں چلے گا
بلکہ
جن کو دین پر اتھارٹی ہے
وہ اجتہاد سے اسلامی سزا کا حکم صادر کریں گے
بے شک جرم کا ہر ثبوت سامنے ہے
لیکن
یاد رہے
اس ملک میں ماہر وکیل بھی موجود ہیں
جو ٹریفک سارجنٹ کو سر عام کچلنے کے بعد مہارت سے چھڑا لے گئے
یہ وکیل حضرات جادوئی زور سے سیاہ کو سفید کرنے کا ہنر رکھتے ہیں
کئی سال ڈگریوں کے حصول کیلئے کتابیں پڑہتے ہیں
کسی نامور وکیل کے چیمبر میں چلے جائیں
تو سیکڑوں کتابوں کی موجودگی ذہن میں ایک ہی خیال لاتی ہے
کہ
اتنی کتابیں پڑھ کر یہ کمال کے جھوٹ بولنا سیکھتے ہیں
مقدمہ اور سزا
دو ایسے عمل ہیں
جن میں سیاست مفاہمت اور طاقت کا استعمال نہ ہو
سزائیں وقت پو بغیر غریب امیر کی تخصیص کے ہو کر
ملک کب کا پاک ہوچکا ہوتا
اسلامی سزائیں سعودیہ میں ہیں
اور
وہاں کے جرائم کی شرح میں کمی
اور
دیگر ممالک کے جرائم کی شرح کا واضح فرق
بیان کرتا ہے
کہ
اس المناک حادثے کے بعد تو گویا مجرموں نے ریاست کا مذاق بنا لیا ہے
کم سے کم آٹھ ایسی ہی خبریں آج مجھے سننے کا اتفاق ہوا ہے
یہ بڑہتی ہی جا رہی ہیں کیوں؟
یہی وجہ ہے کہ ایسے جرائم میں آئے روز خاطر خواہ اضافہ ہوتے دیکھا جا رہا ہے
سزا لازم ہوچکی اور سزا بھی اسلامی ہونی چاہیے
کسی حکمران کے ذہن کی پروردہ نہیں ہونی چاہیے
دوسری اہم بات
اس ملک کے میڈیا کو اور شو بز کو کنٹرول کیا جانا چاہیے
جب لاکھوں کے ملبوسات کے ساتھ لڑکیوں کو مشتہر کیا جاتا ہے
تو یہ غیر اہم عورتیں اہم بناکر پیش کی جاتی ہیں
گویا ہم نئی جرائم کی نرسری لگا رہے ہیں
ہمیں ٹی وی اور شو بز میں ان آزاد خیال تتلیوں کے پروں کو کاٹنا ہوگا
مرد آج اپنی طاقت کی بجائے انکے جلوں پر زندہ کامیاب ہے
جو تباہی اور جرائم کی اصل وجہ بھی ہے
معاشرے کو پاک کرنے کے لئے
نکاح آسان کیے جائیں
شادی ہالز کی بجائے مساجد میں نکاح کا اہتمام کیا جائے
بیٹیوں کو جہیز کی لعنت سے چھٹکارا دلایا جائے
یاد رکھیں
نکاح نبیﷺ کی سنت مبارک ہے
اور
رزق آنے والی اپنے ہمراہ لے کر آتی ہے
سنتیں زندہ کریں
معاشرے کو پاکیزہ بنائیں
براہ کرم پرزور التماس ہے
جب تک اصل مجرم نہیں پکڑا جاتا
سورت النور پارہ اٹھارہ کو کھول کر سب پڑہیں
ہمارے رویے کمال خوبصورتی سے
اللہ رب ا لعزت نے ایسی صورتحال میں اس سورت میں بیان کئے ہیں
کہ
ہم سب خواہ کوئی نمازی ہے یا بے نمازی
کوئی حاجی ہے یا حج عمرہ سے محروم
لیکن
بد نصیبی سے ہماری گھٹی میں یہ بات ہے
بغیر تحقیقی بات آگے سے آگے بڑہاتے انا ہے
ہم نہیں سوچتے کہ
ہماری زبان کی یہ تیزی کس کیلیۓ کیا قیامت ڈھائے گی
حقائق جانے بغیر
ہم تبصرہ ضرور فرمائیں گے
اور
خاص طور سے بڑھ چڑھ کر اپنے اعمال سے بےنیاز ہو کر
خوب مرچ مصالحہ لگا کر اس چورن کو بیچیں گے
کچھ وقت ملے تو
اپنے اپنے گھروں میں موجود
اللہ کی پیاری کتاب کو
بلند مقام سے اتار کر ہاتھوں میں تھامیں
وضو کریں
اور
پارہ اٹھارہ النور سے پڑہیں
ایسے جرائم کی مکمل تفسیر موجود ہے
مظلوم کا بہترین ساتھ اس مجرم کو پکڑنا ہے
ہمارے صبح سے شام تک کئے گئے تبصروں نہیں ہیں
اس گھرانے کو
ان بچوں کو
اس خاتون کو
کیسے کیسے زخمی کر رہے ہیں
یہ ہم سفاک سوچ رکھنے والے کیسے جان سکتے ہیں
اسلام نے امت کو ایک وجود سے مشابہت دی ہے کہا ہے
اپنے جسم کے ایک عضو کی تکلیف اور اذیت محسوس کیجیۓ
اپنا قومی فرض سمجھ کر اس مجرم کو تلاش کرنے میں وسائل کا استعمال کیجیے
حق دلوائیے
انصاف کا بول بالا کیجیے
بول کے لب آزاد ہیں

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر