انصاف اب بھی نہیں

Justice

Justice

تحریر : شاہ بانو میر

ماضی کی تلخ اور تند یادوں میں کہیں دور سے
مختاراں مائی کی دہائی سنائی دیتی ہے
جو اُس وقت ملک کے در و بام ہلا گئی
سوچا اس سے بھیانک واردات
کسی معاشرے میں اور ممکن نہیں
لیکن
پھر
واقعہ سیالکوٹ وقوع پزیر ہوتا ہے
دو بھائی انہیں سر عام تشدد کر کے قتل کر دیا
اس کے بعد
ان کے مردہ جسم کی جو بے حرمتی کی گئی
ہم اسے آخری سمجھتے رہے
لیکن
پھر
بھٹے میں ذاتی بغض کو دین سے جوڑ کر
نو بیاہتاجوڑے کو بھٹے میں زندہ جلا دیا گیا
ان کی چیخیں کانوں میں کئی روز گونجتی رہیں
سوچا
یہ آخری خطرناک واقعہ ہے
سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا
لیکن
ابھی سلسلہ جاری تھا
اسی لیے تو
سانحہ ساہیوال بھی ہو گیا
دونوں سانحات سیاسی پیچیدگیوں کی نذر ہو گیے
آج پھر سے 16 دسمبر آگیا
سانحہ اے پی ایس سے بڑھ کر
کوئی اور بربریت نہیں ہوسکتی
140 معصوم بے قصور ماؤں کے لعل
ان کے ساتھ ان کی اساتذہ کرام کا
نقیب اللہ محسود کو قتل کر دیا جاتا ہے
شاہزیب کا لرزہ خیز قتل نسلوں کو یاد رہے گا
آج اس حکومت کے دور میں
بھارت نے کشمیر کو ہڑپ کرنے کا مذموم قانون پاس کر دیا
پاکستان سوگ کی کیفیت میں ہے
کشمیر پر ایسی جسارت بہتر سال میں نہیں ہوئی تھی
سوچا تھا
کشمیرتو جیسے دکھ بن کر دل میں بس گیا ہے
اس کے بعد اور کیا بڑا حادثہ ہوگا
لیکن
کچھ روز پہلے جو کچھ چشم فلک نے دیکھا
ایک مشتعل قافلہ دو گھنٹۓ تک بارونق مقامات سے گزرتا ہوا
ملک کے سب سے حساس مقام پر دھاوا بولتا ہے
دو گھنٹےتک ہسپتال انتظامیہ ہر حکومتی عہدہ دار سے رابطہ کرتی ہے
کوئی مدد نہی آتی ھُو کا عالم طاری ہے
جو طوفان کی پیش گوئی ہے
ایسے حساس وقت میں
موقعہ واردات کی بجائے
وزیر اعلیٰ جہاز لیتے ہیں بنی گالہ جا پہنچتے ہیں
راستے میں کوئی روکنے والا نہیں
یوں وکلاء برادری بغیر کسی مزاحمت کے
لاہور کے کارڈیالوجیکل ہسپتال پر دھاوا بولتے ہیں
ہسپتال وہ جگہہ ہے
جہاں جنگ میں بھی حملہ کرنا
جنگی جرائم میں شامل ہے
مزید دیکھنے کی تاب نہ تھی
ٹی وی پر چلتے مناظر جیسے دھندلا گئے
آنکھوں کے سامنے پاکستان نہیں
پیرس کا کارڈیالوجیکل ہسپتال آگیا
اگست میں پیرس
کے ایک کارڈیالوجیکل ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا
نرسیں تھیں جیسے الپسرائیں
گفتگو اتنی دھیمی اتنی شیریں جیسے شھد
ایک مریض کو ایمبولینس لے کر آئی
مریضہ سے نرس کہہ رہی تھی
آپ کے پاس بیل موجود ہے
آپ نے بستر سے اترنا نہیں
جو کام ہو صرف بیل بجا دیں
آپ یہ سمجھیں کہ
آپ اپنی ماں کے گھر آئی ہیں
آپ کو ایسا ہی سکون اور آرام ہم دیں گے
مستعد متحرک مسکراتا ہشاش بشاش عملہ
ڈاکٹرز کے انداز میں ایسی ہمدردی
ہمارے ملک میں
ایسا اعلیٰ جاندار ٹریٹمنٹ صرف مریض کی امارت سے ممکن ہے
میں مصروفیت کی وجہ سے
پیرس کے اس ہسپتال پر لکھنے سے قاصر رہی
کئی روز تک وہ حسین و جمیل نرسسز ان کا نرم شہد آگیں لہجے
اور
مریضوں کے ساتھ ان کا رویہ پرسکون خاموش آرامدہ ماحول
کاریڈورز میں گزرتے ہوئے ڈاکٹرز ایسی دھیمی آواز میں بات کرتے
کہ
کسی کے آرام میں خلل نہ پڑے
لکھنے پر مجبور کرتا رہا
لیکن کلاسسز دیگر مصروفیات آڑے آئیں
پاکستان اور بھارت کی تقسیم کے وقت
ایک لفظ اپنے بڑوں سے سنتے تھے
بلوہ
اب تو قیام پاکستان ہے
کالے کوٹ والوں نے اپنے ملک کے اپنے ہی ہسپتال پر
بلوہ کیا
جہاں مقابلہ کن سے تھا ؟
جاں بلب مریضوں سے
جو ڈرپپس لگوائےہوئے تھے
ڈرپس اتاری گئیں
پھر
وینٹیلیٹر موت کا بستر
وہ بھی گرائے گئے
دل کے مرض میں مبتلا مریض
پیرس میں
جن کے بیڈ سے اٹھنے پر پابندی لگائی جاتی ہے
وہ میرے ملک کے
پڑہے لکھے باشعور باوقار وکلاء کے ہاتھوں مار کھا رہے تھے
جھگڑا ڈاکٹرز وکلاء کا تھا
ہمیشہ کی طرح مر عوام رہی تھی
6 مریض مر جاتے ہیں
ہسپتال کی چھت پر
میرے ملک کا دوسرا باشعور طبقہ ڈاکٹرز پتھر پھینک رہے تھے
پولیس سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے حادثے سے بچنے کیلئےخاموش رہی
یہ سب نئے پاکستان میں ہو رہا ہے
آئے روز ایک سے ایک بڑا ایڈونچر ؟
کیوں؟
ملک کے وزیر اعظم کو
آپ عوام میں کھڑا کبھی نہیں دیکھیں گے
وہ کلچر جو بائیس سال سے پڑہایا گیا
وہ زمین پر ہوں تو انہیں بگھتنا پڑےگا
وہی گالیاں وہی انڈے ڈنڈے زمین پر
اب انہیں کھانے پڑیں گے جو شیخ رشید کو کھانے پڑے
عوام ایک طرف مہنگائی سے مر رہی ہے
اور
رہی سہی کسر بد نظمی نے مار کر پوری کر دی
اے حاکم وقت
اس زمین کے باسیوں کو
یوں روندا مسلا کچلا جائے گا
ہر ادارے ہر حادثے میں
ہر دہشت گردی میں صرف
عوام نے مرنا ہے
حقیر نامعلوم بے نام کیڑے مکوڑوں کی طرح
اپنا وزیر اعظم دوسرے ملکوں میں ثالثی کروا رہا ہے
دیکھے
اسکے ملک میں اسکی ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے ؟
ایک طرف بھی ہڑتال دوسری جانب یوم سیاہ
عمران خان
نہ پاکستان کے نظام کا کوئی سر ہے نہ پیر
اور
اس بات کو بھانپ کر
ہر طاقتور مافیا کی صورت اختیار کرتے ہوئے
ملک کو عملی طور پے مفلوج کر رہا ہے
کون ذمہ دار ہے ان چھ بے قصور اموات کا؟
عمران خان
حضرت عمر کا قد لمبا تھا
بیت المال میں سے سب کو ملنے والا کپڑا کم تھا
اتنے کم کپڑے میں عمر ؓ کا کرتا کیسے بنا؟
سابقہ حکمرانوں کو آپ بار بار
یہ واقعہ یاد دلاتے تھے
آپکو یہ بھی پتہ ہوگا
کہ
ایک بڑہیا شہر سے دور رہتی تھی
حضرت عمر فاروق کا انتقال ہوا
اسے خبر نہیں تھی
ایک دن وہ رونے دھونے لگی
کہ
عمر فاروق وفات پا گئے ہیں
کسی نے پوچھا تجھےکس نے بتایا؟
کہنے لگی
بتایا کسی نے نہیں
آج تک عدل فاروقی سے
انسان تو کیا جانور بھی ڈرتے تھے
لیکن
آج میری بھیڑ کو بھیڑیا اٹھا لے گیا
اس سے میں نے جانا
کہ
عمر دنیا میں نہیں رہے
ورنہ اسکی یہ جرآت نہ ہوتی

کرتے کی مثال والے یہی فاروق اعظم فرماتے تھے
کہ
فرات کے کنارے
کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو میں ذمہ دار ہوں
یہ چھ جو مرے ان کا ذمہ ار کون ہے؟

یہی وہ کرتے کا حساب دینے والے عمرؓ ہیں
جو راتوں کو بھیس بدل کر مدینہ کی گلیوں میں پھرتے تھے
کبھی کسی غریب کی پکار سنتے تو
اپنی پیٹھ
پر اناج لاد کر بیوہ عورت کے گھر دے کر آتے
اور
جب تک کھانا کھا کر وہ یتیم بچے سو نہ جاتے
آپ وہیں موجود ان کا دل بہلاتے
ریاست مدینہ یہ تھی
اور
حضرت عمرؓ یہ تھے
آپکی پسندیدہ ہستی ایک اور ہے
چرچل
انکی مثال بھی آپ دیتے ہیں
دوسری جنگ عظیم میں
اس کے یادگار لفظ تاریخ نے محفوظ کئے
کہ
عدالتی نظام اگر درست چل رہا ہے تو
باقی مسائل کی کوئی فکر نہیں
عمران خان
یہ آپ کا دور ہے
انصاف کے ادارے بند پڑے ہیں
لگتا یہی ہے
وقت گزرے گا
کچھ معاملہ میڈیا پرٹھنڈا ہوگا
تو
صلح صفائی کے ساتھ
دونوں ادارے پہلے جیسےچلیں گے
صرف
جانے والے اب کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے
ان کا نہ قصاص نہ دیت
یعنی
انصاف اب بھی نہیں

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر