نا انصافیوں کو دھونے کی کوشش ضرور کریں!

Pakistani Politics

Pakistani Politics

آج پاکستان میں قومی سیاست میں ایک بھونچال نظر آتا ہے۔ سیاسی پارہ میں دن بدن حدت آتی جا رہی ہے۔ سیاسیات آج ملک بھر میں زعفران بنا ہوا ہے ملک کی پارٹیوں کے پاس عوام کو مطمئن کرنے کے لئے کوئی ٹھوس وضاحت موجود نہیں ہے۔کئی پارٹیاں ایسی بھی ہیں جو سیاست کے رنگ رنگ جانے کے بجائے اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ عجیب و غریب سیاست جاری ہے کہ بل پاس ہوتا ہے اور پھر وہی بل واپس بھی لے لیا جاتا ہے۔ قتل و غارت گری کو بند کرکے امن و امان مہیا کرنے میں تذبذب ہوتا ہے۔

عوام پریشان ہے جناب! عوام کو آپ سب کی سیاست سے دلچسپی نہیں ہے بلکہ عوام کو امن و امان ، روزگار چاہیئے نا کہ آپ کی سیاسی بازیگری۔ عوام دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، دستی بم حملے سے اپنا اور اپنے احباب کا بچائو چاہتی ہے نا کہ آپ کی انہونی بیان بازی کہ اس ماہ زیادہ خون خرابہ ہو گا۔وہ کام کیا جائے جس سے عوام خوش ہوں نا کہ ایسے اقدامات جس سے عوام ناخوش رہیں۔

اپنے اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر بنانے کے بجائے اپنے ہم وطن بھائیوں کے ساتھ پُر خلوص زندگی گزارنے کے فارمولے لائیں۔ ان چھبتے ہوئے حقائق کے باوجود عوامی رائے کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ ایک ایک گھنٹے کے ٹاک شوز میں لوگ بحث و مباحث کرتے ہیں پھر بھی نتیجہ صفر نکلتا ہے کیونکہ پروگرام کا وقت اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے اور عوام دوبارہ وہیں کھڑے نظر آتے ہیں۔
لے گا زمانہ خون کی ہر بوند کا حساب
قاتل کو قتلِ عام سے تھکنے تو دیجئے
آیئے وطن کی تعمیر کی بات کریں، وطن کو سنوارنے کی بات کریں، ماضی کی باتوں کو چھوڑ کر اپنا مؤثر کردار نبھائیں تو مستقبل میں بھی تعمیرِ وطن، اصلاح معاشرہ اورخدمتِ عوام کریں۔

اس لئے بدلتے ہوئے حالات میں از خود ہی بہتر اور فعال کردار ادا کرنے لئے منصوبہ بندی کریں ۔آج عوام کے صبر کا تو جنازہ نکل چکا ہے ہر نئی صبح لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوکری کی تلاش میں تو جائیں گے مگر کیا مراد بَر آئے گی۔ تڑپتی انسانیت کے غموں کا مداوا کریں تاکہ آپ سب عوام میں زندہ رہ سکیں۔ حکومتوں کا چاہیئے کہ قانون سازی میں یکطرفہ فیصلہ دینے سے اجتناب کیا جائے اور عادلانہ فیصلہ کرے تاکہ ہر امیر اور غریب کو یکساں انصاف فراہم کیا جا سکے ( اس لئے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی دوستو)انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اس کی خطائوں کو معاف کرکے دنیا میں اس کے زندگی گزارنے کے بہترین اسباب پیدا کئے ہیں۔ اور انسانوں پر آپ کو حکمران بنایا ہے۔

جب اللہ اپنے بندوں کو معاف کرنے کے اسباب بنا سکتا ہے تو آپ کیوں نہیں اپنی رعایا کو معاف کرنے کے اسباب مہیا کرتے۔ اور آپ عوام الناس کو اس طرح معافی دے سکتے ہیں کہ بیزار عوام کو ہر طرح کی بنیادی سہولتیں مہیا کریں ، انہیں روزگار کی فراہمی یقینی بنائیں، انہیں امن و امان دیں، انہیں بجلی تواتر سے فراہم کریں، انہیں گیس وافر مقدار میں فراہم کریں ، مہنگائی میں کمی کرکے بھی آپ عوام کی داد رسی کر سکتے ہیں۔ دہشت کے لفظی معنی ہیں۔ ڈر، خوف اور خوفناک شخص یا شئے ، دہشت گردی کا مطلب ہے دہشت اور خوف کو اپنے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنانا۔ آج ملک بھر کے عوام اسی ڈر، خوف اور خوفناکی سے سہمے ہوئے ہیں انہیں اس ڈر اور خوف سے نکالیئے تا کہ عوام بھی جینے کے ادوار کو سکون سے گزار سکیں۔

Pakistan

Pakistan

مادرِ وطن میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ ان نوجوانوں کو متحد کرنا، ان کی صلاحیتوں کو مثبت و تعمیری کاموں مین لگانا نیز فلاح و بہبود اور نوکری کے لئے تیار کرکے انہیں روزگار فراہم کرنا تمام ہی حکومتوں کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں انداز ہی نرالے ہیںبجائے ان تمام معاملوں کو لگن کے ساتھ حل کرنے کے ان پر کوئی توجہ نہیں جا تی اور اسی لئے ہمارے نوجوانوں کا کچھ حصہ بے راہ روی کا شکار ہے تو کچھ حصہ ہنگاموں ، کلنگ اور دہشت گردی کا شکار ہو چکا ہے۔ کچھ حصہ نشے کی لت میں پڑ کر اپنی زندگی خراب کر چکا ہے۔ اور ایسے محلق شکنجوں میں تمام ہی زبانوں اور تمام ہی مسلک کے نوجوان شامل ہیں۔آپ اپنے مختلف سلوگن اور نعروں کے ذریعے اس نوجوان نسل کو ضرور بیدار کریں مگر ان کی پریشانیوں کو بھی مدِنظر رکھیں جو کسی گھرانے کے روزی روٹی کمانے کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔ یہ نوجوان نسل ہماری اور آپ سب ہی کے اثاثہ ہیں ان کی قدر ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

نامعلوم کو معلوم کرنے کی خواہش اور جستجو ہر انسان کی جبلت میں داخل ہے۔ اگر انسان اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا صحیح استعمال کرے تو وہ اس سچائی کو پا سکتا ہے ۔ لہٰذا یہ نا معلوم افراد کا معمہ جو عرصۂ دراز سے چل رہا ہے کہ نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی، نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ، یہ سب مذاق کی باتیں لگتیں ہیں کیونکہ عوام اب باشعور ہو چکے ہیں اور ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت (جسے ہم سب چھتی حِس بھی کہتے ہیں) جاگ چکی ہے ۔ اسی طرح تیسرا ہاتھ ہے جو سب کچھ کر رہا ہے ، ارے بھائی وہ کون سا تیسرا ہاتھ ہے جو ابھی تک مل نہیں پا رہا اور عوام گاجر مولی کی طرح کٹتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ان پر پردہ ڈالنا در حقیقت اپنی صلاحیتوں کو کفر کے زمرے میں ڈالنا ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ نا معلوم کو معلوم بنائیں اور تیسرے ہاتھ کو تلاش کریں کیونکہ اب وقت آن پہنچا ہے کہ عوام ان باتوں کا تدارک چاہ رہے ہیں اور چونکہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں اس لئے عوام کی خبر گیری کی جائے۔

صدیوں سے مملکت میں عوام ایک دوسرے کے ساتھ رواداری، فراخ دلی، ملنساری کے ساتھ رہتے آئے ہیں مگر نہ جانے اب اس زمانے میں تعصب، تنگ نظری یا فرقہ پرستی کی مثالیں یہاں کب اور کہاں سے سرائیت کر گئی ہے ، ہماری کوشش ہونی چاہیئے کہ ہم ماضی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ حال اور ماضی میں بھی رہنا سیکھیں ، اگر ہم سب ایک ہو کر رہنا سیکھ لیں گے تو کوئی دشمن ہماری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکے گا جیسا کہ پانچ انگلیاں اگر الگ الگ رہیں تو ان میں طاقت کا فقدان نظر آتا ہے مگر جب یہی پانچوں انگلیاں جمع ہو کر مکّا بن جائیں تو کسی کا جبڑا بھی توڑ سکتا ہے۔

بس اس فارمولے پر ہم سب کو عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے دشمن، ہمارے خلاف بولنے والے، ہماری دوستی اور اپنائیت کے رشتوں کو سبوتاژ نہ کر سکیں۔ اور یہ جبھی ہو سکے گا جب ہم لوگ متحد ہونگیں اور ہماری حکومت بھی عوام کی خلوصِ نیت کے ساتھ خیال رکھے گی۔ گو کہ ایسی مثالیں آج کی اس پُر آشوب دور میں ناپید ہیں مگر ہماری آپ کی ایک کوشش اسے واپس لا سکتی ہے ۔ کیونکہ اس دورمیں محبت، دوستی، بھائی چارگی ، اپنائیت کو واپس لاکر ہم سب اپنے ملک کو یقینا دنیا بھر میں قابلِ اعتبار بن سکتے ہیں۔

Allah

Allah

ظلم کے لفظی معنی ہیں کسی چیز کو اس کی صحیح جگہ پر نہ رکھنا، مثال کے طور پر سر کی ٹوپی کو پائوں پر رکھنا یا رومال سے جوتا صاف کرنا ظلم ہے۔ حق سے ہٹ جانا طلم ہے۔ ظلم کئی طرح کا ہوتا ہے ایک وہ ظلم ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے۔ ایک دوسرے کے حقوق کی پامالی یا اپنی ذمہ داریوں کی نباہنے میں کوتاہی۔ اور سب چونکہ اللہ کی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔ نماز چھوڑ بیٹھے ہیں ، اللہ کو یاد نہیں کرتے اور قرآن کو جُلدانوں میں سجا کر رکھ چھوڑا ہے جس کی وجہ سے اس طرح کے موذی عذاب ہم پر نازل ہو رہے ہیں۔ اس لئے عوام کو بھی اور حکمرانوں کو بھی اللہ کے حضور توبہ ضرور کرنا چاہیئے تاکہ ان عذابوں کا تسلسل ختم ہو سکے۔

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی