کے الیکڑک مافیا۔۔۔!

K-electric

K-electric

تحریر : قادر خان یوسف زئی

سب بخوبی آگاہ ہیں کہ مملکت کو 65 سے 70 فیصد ریونیو دینے والا شہر قائد’مظلوم ماں‘ کی مثل کس قدر تکلیف و اذیت سے گذر رہا ہے، روشنیوں کا شہر انتظامی نا اہلی کے سبب کھنڈرات، گندے ندی نالے اور کچروں کے انبار کے ساتھ دنیا بھر کے دیرینہ مسائل کی آجامگا ہ بن چکا ہے۔ صاف پانی ہو یا سیوریج کا، بے روزگار فردہو تاجر برداری کی پریشانیاں، صحت کا مسئلہ ہو مُردے دفنانے کے لئے قبرستان میں قبر کے لئے جگہ کا نہ ملنا، غرض مسائل کا انبار ہے۔ شدید گرمی میں مون سون کی بارشوں کے دوسرے اسمارٹ سیزن نے کراچی کو ڈبو دیا، لیکن ارباب اختیار کو اہل کراچی پر ترس نہیں آیا۔

کراچی پر جہا ں کرپٹ گدھ مسلط ہیں وہاں ایک ایسا عذاب بھی سیاسی مفادات کے باعث شہر قائد پر مسلط کیا گیا ہے، جس کی فرعونیت کاحل کسی کے پاس نہیں۔کوئی بھی حکومت آئے، کسی بھی سیاسی جماعت کی حکمرانی ہو، حکمراں یا حزب اختلاف ہوں، معاشی شہ رگ کے شہریوں کے 99فیصد صارفین ایوریج بل، اووربلنگ، اعلانیہ و غیر اعلانی لوڈ شیڈنگ کی دہائی دیتے نظر آئیں گے۔ ذاتی طور پر جتنے بجلی کے صارفین دیکھے، انہوں نے ہاتھ الٹا کرکے بجلی فراہم کرنے والے ادارے اور ان کے ذمے داروں کو بد دعائیں ہی دیں کہ ایک تو بجلی نہیں دوم اس ادارے نے زندگی اجیرن کردی ہے کہ اتنی تنخواہ نہیں جتنا بجلی کا بل بنا کر بھیج دیا جاتا ہے۔

میٹر ریڈر چاہے جتنی بھی ایمانداری سے استعمال کرنے والے گھریلو یا کمرشل صارف کے میٹر سے یونٹس ریکارڈ کرے، بلنگ ڈیپارٹمنٹ کا اپنا قانون و اپنا نظریہ ’میٹر ریڈنگ سیفٹی‘ کے نام پر اجارہ داری ہے، اپنے فسطائی نظریئے کے مطابق نام نہاد اوسط بل بنا دیا جاتا ہے، شکایت کرنے پر نیا بل راتوں رات تبدیل اور اصل بل سے تین گنا زائد بل کے ساتھ ضمنی بل بنا کراقساط کرنا، جیسے احسان عظیم کیا گیا، اگر بروقت قسط نہ بھری جائے تو چند ہزار کے بل پر سینکڑوں روپے لیٹ پے منٹ کا الگ سر چارج لگادیا جاتا ہے۔ غرض زیادہ سے زیادہ رقم گورنمنٹ چارجز، فیول ایڈجسٹمنٹ، جنرل سیل ٹیکس،سلیب چارجز کے نام پر تھوپی جاتی ہے۔سابق مہینے کی ریڈنگ کے ساتھ حالیہ ریڈنگ کے ساتھ استعمال شدہ یونٹ بھی ہوں گے اور اس کے ساتھ بل ڈیپارنمنٹ کے نظریئے کے تحت اضافی یونٹس بنا کر اووربلنگ معمول بنا چکا ہے۔

لوڈشیڈنگ، اوسط بل اور اوور بلنگ ایک ایسا عذاب مسلسل ہے، جس سے اہل کراچی کو چھٹکارا نہیں مل پا رہا، عوام کی عمومی رائے یہی ہے کہ اووربلنگ کے تحت حاصل کردہ زائد رقم بعض جماعتوں و تنظیموں و بیشتر میڈیا ہاؤس کو دی جاتی ہے جو نجی ادارے کے خلاف احتجاج کرکے، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور اپنا حصہ وصول کرتے ہیں، یہ حصہ اہل کراچی سے تحریری جاری کردہ بھتے کی صورت میں جبراََ وصول کی جاتی ہے۔ عوام کی رائے ہے کہ جس ادارے نے کبھی اضافی بجلی کی فراہمی کے لئے کام نہیں کیا، مالیاتی اداروں سے کھربوں روپے قرض لئے، حکومت سے سہولیات حاصل کیں، لیکن کبھی اس ادارے نے عوام کو ریلیف نہیں دیا، اوسط بل، اووربلنگ اور لوڈ شیڈنگ کا ایک ایسا عذاب مسلط کیا ہواہے جس کو کوئی لگام دینے کی اہلیت و ہمت نہیں رکھتا۔

کراچی الیکڑک سپلائی کارپوریشن کی جب نجکاری کی گئی تو برسوں تک کسی کے علم میں نہیں تھا کہ اس سرکاری ادارے کو خریدنے والا، اصل مالک و شراکت دارکون کون ہیں، بعدازاں سپریم کورٹ میں ایک کیس کے دوران وہ خفیہ معاہدہ سامنے آیا، جس میں عوام کے بنیادی حقوق بے رحمی سے فروخت کردیئے گئے تھے۔ معروف سیاسی جماعتوں کے رشتے دار بھاری معاوضوں پر بھرتی کرکے سیاسی چھتری استعمال کرنا وتیرہ بن گیا۔ عوام بخوبی واقف ہیں کہ کون کون سی جماعت کے رہنماؤں کے رشتے دار بھرتی ہوئے اور عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اپنی تنخواہ بھی نکالتے اور جونک کی طرح عوام کا خون بھی پیتے ہیں۔کراچی مثل اُس ماں مظلوم کی طرح ہی ہے جو ریاست کو پال پوس کر جوان کرتی ہے تو اس کی اولاد ناخلف ونافرمان بیٹے بن جاتے ہیں۔

، عوام کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے، کوئی شنوائی،سنوائی نہیں، سونے کی چڑیا کے پَر نوچے جا رہے ہیں، اذیت سے چیخ و بلکنا بھی کسی کو نظر نہیں آتا، بے رحم کیفیت میں مبتلا اہل کراچی کا احساس محرومی میں مبتلا ہونااور بنیادی حقوق کو سلب کیا جانا نیک شگون قرار نہیں دیا جا سکتا۔اگر حقدار کو اُس کا جائز حق نہ ملے تو احساس محرومی کو کوئی ’احساس‘ پروگرام دور نہیں کرسکتا بلکہ اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، جس کی مثال بلوچستان کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، جہا ں احساس محرومی کے جنم کے بعد اُس کے پنپنے سے دشوار گذار مشکلات پیدا ہوئیں۔ اہل کراچی کے ساتھ مظلوم ماں جیسا سلوک ختم کرنا ہم سب کے حق میں بہتر ہوگا۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی