کراچی کی 3 بڑی جامعات میں ترقیاتی منصوبے التوا کا شکار

Jinnah Sindh Medical University

Jinnah Sindh Medical University

کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) کراچی کی 3 بڑی سرکاری جامعات گزشتہ کئی برسوں میں حکومت سندھ کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے ملنے والے ڈیولپمنٹ فنڈز کا استعمال ہی نہیں کر سکیں۔

فنڈز کے عدم استعمال اور ترقیاتی منصوبے شروع نہ کرنے کے حوالے سے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی سرفہرست ہے جبکہ دیگر دو جامعات میں شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاء اور جامعہ کراچی شامل ہے۔ یہ بات پیر کو وزیر اعلی سندھ کے مشیر برائے جامعات و تعلیمی بورڈز نثار کھوڑو کی زیر صدارت ترقیاتی منصوبوں سے متعلق وائس چانسلرز کے منعقدہ اجلاس میں سامنے آئی ہے۔

مشیر برائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے ترجمان کے مطابق مشیر جامعات نثار کھوڑو نے دوران اجلاس جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی، شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاء اور کراچی یونیورسٹی میں ترقیاتی اسکیموں پر فنڈز کے اجرا کے باوجود مختلف ترقیاتی اسکیموں پر کام نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

اجلاس یہ بات سامنے آئی کہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں اپ گریڈیشن اور اسٹرینتھننگ کے حوالے سے گرلز ہاسٹل اور اکیڈمک بلاکس کی تعمیر اور اپ گریڈیشن کے لیے 2015 میں 791 ملین روپے کی اسکیم پر رواں سال 130 ملین روپے مختص کیے گئے جس میں سے 30 ملین روپے جاری بھی ہوئے۔

’’ایکسپریس‘‘ نے اس صورتحال پر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیو ایشن کمیٹی کے قائم مقام سربراہ ڈاکٹر طارق رفیع کا موقف جاننے کے لیے ان سے کئی بار رابطے کی کوشش کی تاہم وہ مسلسل رابطے سے گریز کرتے رہے۔

ترجمان کے مطابق نثار کھوڑو نے کراچی یونیورسٹی میں شہید بینظیر بھٹو چیئر اور کنوینشن سینٹر کی تعمیر کا کام 2017 سے بند ہونے ہر بھی برہمی کا اظہار کیااور کہا کہ کراچی یونیورسٹی شہید بینظیر بھٹو چیئر اور کنوینشن سینٹر کی تعمیر کے کام کے لیے تاحال کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل نہیں کرسکی۔

جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی کا کہنا تھا کہ 2017 میں جامعہ کراچی میں سیوریج نظام کی تنصیب کے لیے 400 ملین روپے مختص کیے گئے۔ ایک سال بعد ہمیں سندھ حکومت کی جانب سے اسائنمنٹ اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت ملی۔ اس کے بعد کنسلٹنٹ کی تقرری کا معاملہ آیا تو مسلسل 8 اجلاسوں تک محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ نے اپنا نمائندہ نہیں بھیجا جس کے سبب کمیٹی کنسلٹنٹ کا تقرر ہی نہیں کرسکی تاہم اب 24 مارچ کو اس منصوبے کا کنسلٹنٹ کا تقرر کرلیا گیا ہے۔

بینظیر بھٹو چیئر اور کنونشن سینٹر کے حوالے سے وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ یہ پروجیکٹ 2012 میں شروع ہوا۔ دو سال تک فنڈ ہی ریلیز نہیں کیے گئے،ترجمان برائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کا کہنا ہے کہ 442 ملین روپے کی 2014 کی اس اسکیم پر 177 ملین روپے کے اجرا سے انتظامیہ 2016 تک صرف 164 ملین روپے خرچ کیے اور اس اس اسکیم کا کام 2017 سے بند ہے،مشیر وزیر اعلی سندھ کے ترجمان شکیل میمن رابطہ کرنے پر اطمینان بخش جواب نہیں دے سکے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاء میں آرڈیٹوریم،کلاس رومز میں سہولیات اور سٹی کیمپس کی تعمیر کے لیے 200 ملین کی اسکیم سے 104 ملین روپے جاری کیے گئے تاہم یونیورسٹی نے صرف 50 ملین روپے خرچ کیے۔