مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارتی اقدام پر پاک بھارت روایتی جنگ کا خطرہ ہے، وزیراعظم

Imran Khan

Imran Khan

اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (انٹرنیشنل کرمنل کورٹ) جانے کا اشارہ دے دیا۔

عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کے بھارتی حکومت کے اقدام کے بعد پاک بھارت روایتی جنگ کے خطرے کا بھی اشارہ دے دیا۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ نسل پرست بھارتی حکمرانوں نے ملکی اور بین الاقوامی قوانین پامال کردیے، تحریک آزادی کشمیر اب مزید شدت اختیار کر جائے گی، مقبوضہ کشمیر کے اندر سے پلوامہ جیسے حملے ہو سکتے ہیں جن کا الزام بھارت پاکستان پر دھرے گا، دنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ جو بھارت نے کیا وہ ہم مانیں گے نہیں۔ اب ہم تباہی کی طرف جا رہے ہیں، اگر دونوں ایٹمی طاقتوں کا ٹکراؤ ہوا تو اثرات پوری دنیا تک جائیں گے۔

وزیراعظم جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اظہار خیال کرنے آئے تو اپوزیشن نے شور شرابا کیا جس پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس سیشن کو کشمیری اور پوری دنیا دیکھ رہی ہے، اگر آپ یہ سیشن خراب کرنا چاہتے ہیں تو میں بیٹھ جاتا ہوں، یہاں سے پیغام جانا چاہیے کہ قوم اکٹھی ہے۔

وزیراعظم کے اظہار خیال پر اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے نشست سے اٹھ کر اپوزیشن ارکان سے خاموشی اختیار کرنے کی درخواست کی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت نے جو کل فیصلہ کیا اس کا اثر ساری دنیا میں جاسکتا ہے، جب ہماری حکومت آئی تو غربت کا خاتمہ ہماری پہلی ترجیح تھی، اس کیلئے پڑوسیوں سے تعلقات بہتر کرنے کا سوچا، آتے ہی بھارت کو کہا ایک قدم بڑھاؤ ہم دو بڑھائیں گے، افغانستان اور ایران بھی گیا، امریکا گیا تاکہ ماضی کی چزیں ختم ہوں، سرمایہ کاری آئے اور ہم لوگوں کو غربت سے نکال سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مودی سے جب شروع میں بات کی انہوں نے ٹریننگ کیمپ جیسے خدشات ظاہر کیے، انہیں سمجھایا کہ آرمی پبلک اسکول کا سانحہ ہوا تو ہماری ساری سیاسی جماعتیں ایک پیج پر آگئیں، ہم نے ایک نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق کیا جس کے تحت عسکری گروپوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے بھارت سے مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کی تو دیکھا وہ دلچسپی نہیں لے رہے تھے، اس کےبعد پلوامہ کا واقعہ ہوا، اس کے بعد پوری کوشش کی کہ انہیں بتائیں اس میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں تھا لیکن تب بھی احساس ہوا کہ ان کے الیکشن تھے اور انہوں نے اپنے الیکشن کیلئے پاکستان کو استعمال کرنا تھا۔

عمران خان نے مزید کہا کہ بھارت نے اپنے ملک میں الیکشن جیتنے کے لیے ایک جنگی ماحول بنایا، ڈوزیئر بعد میں بھیجا، اپنے جہاز پہلے بھیجے، پاکستان ائیر فورس نے اس کا بہترین جواب دیا، ہم نے ان کا پائلٹ اس لیے بھیجا تاکہ انہیں بتائیں کہ ہمارا جنگ کا کوئی ارادہ نہیں، ہم پھر خاموشی سے بیٹھ گئے اور الیکشن کا انتظار کیا، الیکشن کے بعد بھی بات چیت کی کوشش کی، بشکک میں ان کا رویہ دیکھا تو فیصلہ کیا کہ بھارت ہماری امن کی کوششوں کو غلط اور کمزوری سمجھ رہا ہے، پھر فیصلہ کیا کہ ان سے بات چیت نہیں کریں گے، کشمیر کے معاملے پر پھر ٹرمپ کو بیچ میں ڈالنے کی کوشش کی۔

وزیراعظم نے کہا کہ جس کا خدشہ تھا وہ سامنے آگیا، کل جو کشمیر میں کیا گیا وہ ایک دم نہیں کیا، یہ ان کے الیکشن کا منشور تھا، یہی ان کا نظریہ ہے، یہ آر ایس ایس کے نظریے کی بنیاد ہے، ان کے بانیان کا یہی نظریہ ہے، یہ صرف ہندو راج چاہتے ہیں، آج قائداعظم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ پہلے انسان تھے جو اس نظریے کو بھانپ گئے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے کچھ لیڈر ماضی میں کہتے تھے پاکستان غلط بنا لیکن آج وہی لوگ کہہ رہے ہیں قائد کا دو قومی نظریہ درست تھا، بی جے پی کی حکومت گوشت کھانے والوں کو لٹکا دیتی ہے جو انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں کیا یہ ان کا نظریہ ہے، ہمارا مقابلہ نسل پرستانہ نظریے سے ہے، کشمیر میں انہوں نے اپنے نظریے کے مطابق کیا، وہ ملک کے آئین کے خلاف گئے، سپریم کورٹ اور مقبوضہ کشمیر کی ہائیکورٹ کے خلاف گئے، اقوام متحدہ جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل اور شملہ معاہدے کے خلاف گئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے ڈیموگرافی بدلنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے جو جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے، انہوں نے اپنے نظریے کے لیے سارے بین الاقوامی اور ملکی قوانین توڑ دیے، کشمیر کو الگ کردیا، سوال یہ ہےکہ کشمیر کے لوگوں پر جو ان سالوں میں ظلم ہوا کیا وہ قانون کی وجہ سے چپ بیٹھ جائیں گے، یہ اب مزید شدت پکڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ سے مداخلت کا کہا تھا کیونکہ ہماری بات چیت فیل ہوگئی تھی، ہمیں سمجھنا ہے یہ سنجیدہ معاملہ بن گیا ہے، اب ان لوگوں نے آزادی کی تحریک مزید دبانا ہے، یہ انہیں برابر کا انسان نہیں سمجھتے، جب یہ ایسا کریں گے تو رد عمل آئے گا، پیشن گوئی کرتا ہوں اب جو رد عمل آئے یہ ہم پر الزام لگائیں گے، اس کے بہت سنجیدہ نتائج ہوں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بار بار کہا دو ایٹمی قوتیں ایسا رسک نہیں لے سکتیں، اپنا مسئلہ بات چیت سے حل کرنا چاہیے، ان لوگوں میں ایک تکبر نظر آتا ہے جو ہر نسل پرست میں نظر آتا ہے، انہوں نے آزاد کشمیر میں بھی کچھ کرنا ہے، کوئی ایکشن لیا تو جواب دیں گے، یہ نہیں ہوسکتا، اگر بھارت حملہ کرے گا تو ہم جواب دیں گے، اس سے روایتی جنگ ہوسکتی ہے، اس کے دو نتیجے ہوسکتے ہیں، اگر ہمارے خلاف جنگ جاتی ہے تو بہادر شاہ یا ٹیپو سلطان کا راستہ اپنانا ہوگا، ہاتھ کھڑے کردیں گے یا خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ نیو کلیئر بلیک میلنگ نہیں کررہا، یہ ایکشن لینے کا وقت ہے، دنیا سے اپیل کرتے ہیں ایک ملک جو عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے کیونکہ اسے پتا ہے پہلے بھی اسے کچھ نہیں کہا گیا جس سے اسے شے ملی، اس کے سنجیدہ نتائج ہیں، یہ گیم وہاں جائے گی تو ایسا نقصان ہوگا کوئی تصور نہیں کرسکتا، یہ وہ سوچ ہے جس نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا، اگر دنیا آج کارروائی نہیں کرے گی اور اپنے بنائے قوانین پر عملدرآمد نہیں کرائے گی تو ہم ذمہ دار نہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم ہر فورم پر لڑیں گے، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں لڑیں گے، دیکھ رہے ہیں کہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں کیسے جائیں، ہم اسے جنرل اسمبلی میں بھی اٹھائیں گے، دنیا کو بتائیں گےکہ ساری دنیا کو اس کا نقصان ہوگا، کشمیریوں کے ساتھ سارا پاکستان ہی نہیں بلکہ مسلمان دنیا کی آواز ہے، مغرب کو حقیقت کا نہیں پتا، ہم مغرب میں جاکر بتائیں گے کہ کشمیریوں اور بھارت میں اقلیتیوں سے کیسا ظلم ہورہا ہے، یہ ویسٹرن ورلڈ قوانین کی خلاف ورزی ہورہی ہے، ہمارا کام دنیا میں اس کو اٹھانا ہے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور بلااشتعال فائرنگ ‘ کلسٹر بموں کے استعمال اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں اضافی فوجیوں کی تعیناتی سے پیدا ہونے والی صورتحال زیر بحث لانے کے لئے تحریک پیش کردی گئی۔

حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی نے قرارداد پیش کی جس پر اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے اعتراض کیا کہ ایجنڈے میں آرٹیکل 370 کا معاملہ شامل نہیں، پیپلزپارٹی کے رضا ربانی نے کہا کہ قرارداد میں آرٹیکل 370 کا ذکر نہیں اس میں ترمیم کی جائے جس پر شیخ رشید نے بھی اس کی حمایت کی اور آرٹیکل 370 شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔

اپوزیشن کے مطالبے پر حکومت نے قرارداد میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کو شامل کیا اور اعظم سواتی نے قرارداد پڑھ کر سنائی۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارتی افواج کی جانب سے آزاد جموں و کشمیر میں شہری آبادی پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات میں حالیہ اضافے اور کلسٹر بموں کے استعمال، بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں اضافی فوجیوں کی تعیناتی اور وہاں ڈھائے جانے والے مظالم نیز حال ہی میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کی صورتحال پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بحث کی جائے۔

قرارداد پر بحث کے لیے اسپیکر نے جیسے ہی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کو دعوت دی اور وہ کھڑی ہوئیں تو اپوزیشن نے احتجاج شروع کردیا اور ایوان میں شورشرابا شروع ہوگیا۔

اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کو ایوان میں بلانے کا مطالبہ کیا گیا، ایوان میں شور شرابے پر اسپیکر نے اجلاس 20 منٹ کیلئے ملتوی کردیا۔

اسپیکر کی جانب سے اجلاس ملتوی کیے جانے کے 20 منٹ بعد بھی شروع نہ ہوا اور تقریباً ساڑھے تین گھنٹے بعد شروع ہوا۔

اس سے قبل اجلاس کے آغاز پر سینیٹر رضا ربانی نے گرفتار ممبران اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بدھ کی صبح 11 بجے تک کیلئے ملتوی کردیا گیا ہے۔

واضح رہےکہ بھارتی حکومت کی جانب سے صدارتی حکم نامے کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے خصوصی اختیارات سے متعلق آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے احکامات جاری کیے گئے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں کہلائے گی اور لداخ بھی بھارتی یونین کا حصہ ہوگا۔