کشمیر ترستا ہے آزادی کی سحر کو

Kashmir Freedom

Kashmir Freedom

تحریر : محمد آصف تبسم

وادی کشمیر میں بھارتی مظالم کو 42 دن گزر گئے ،کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل میں قید، دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی انتہا ہو گئی، کرفیو کو 42 روز ہو گئے، کشمیری مسلمانوں کو نہ کھانے پینے کی اشیا دستیاب ہیں اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی مہیا کی جا رہی ہیں۔ نہتے کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت کی ہر قیمت دینے کو تیار ہیں۔وادی کے ہر گلی کوچے پر بھارتی فوجی تعینات ہیں جن کی قائم کردہ چیک پوسٹوں پر خطرناک اسلحہ موجود ہے، کوئی شہری انتہائی ضرورت کے تحت اپنے گھر سے نکلنے کی کوشش کرے تو پیلٹ گنز سے شدید زخمی کر دیا جاتا ہے، ظلم کی انتہا کہ ہسپتالوں میں ادویات تک ختم ہو چکی ہیں اور مریضوں کی حالت انتہائی خراب ہے، آپریشن کرنے کیلئے بھی ضروری سامان مہیا نہیں اس کے باوجود مودی حکومت ذرا سی لچک دینے کو تیار نہیں۔بھارتی حکام نے مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست کو متنازع خطے کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سیاسی قیادت سمیت سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا۔

ریاست جموں و کشمیر بنیادی طور پر 7 بڑے ریجنوں وادی کشمیر، جموں، کرگل، لداخ، بلتستان، گلگت اور پونچھ اور درجنوں چھوٹے ریجنوں پر مشتمل 84 ہزار 471 مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ریاست آبادی کے حساب سے اقوام متحدہ کے 140 اور رقبے کے حساب سے 112 رکن ممالک سے بڑی ہے۔ مذکورہ بالا تمام ریجنوں کی اپنی اپنی ایک تاریخ ہے جو ہزاروں سال پر محیط ہے۔ ہزاروں سالہ تاریخ کا جب مطالعہ کیا جاتا ہے تو کبھی کشمیر کی ریاست دہلی سے کابل، کبھی لداخ سے سندھ کے ساحل کراچی تک پھیلی نظر آتی ہے اور کبھی اسی ریاست میں درجنوں چھوٹی بڑی آزاد ریاستیں نظر آتی ہیں۔

آج کی دنیا میں جس ریاست کی بات کی جاتی ہے وہ 15 اگست 1947ء کوقائم ہوئی۔ ریاست جموں و کشمیر ہے اور اقوام متحدہ میں یہی پوری ریاست متنازعہ کشمیر قرار پائی۔ کشمیریوں کی بدقسمتی کا آغاز 16 مارچ 1846ء میں معاہدہ امرتسر کے ساتھ ہی ہوا جس کے ذریعے گلاب سنگھ نے انگریز سے 75 لاکھ نانک شاہی میں جموں و کشمیر اور ہزارہ کا علاقہ خرید کر غلام بنایا جبکہ گلگت بلتستان، کرگل اور لداخ کے علاقوں پر قبضہ کر کے ایک مضبوط اور مستحکم ریاست قائم کی، مہاراجہ کشمیر نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی کیونکہ حکمراں طبقہ اقلیتی تھا جبکہ خطے کی 85 فیصد آبادی مسلمانوں کی تھی اس لئے حکمراں ہمیشہ مسلمانوں سے ہی خطرہ محسوس کرتے تھے۔ مہاراجہ نے مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے کے لئے بڑی کوششیں کیں یہی وجہ ہے کہ 1846 کے بعد ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف 1931 تک کوئی نمایاں آواز نہیں اٹھی اگرچہ اس عرصے میں مسلمانوں کی نصف درجن سے زائد انجمنیں یا جماعتیں بن چکی تھیں مگر ڈوگرہ کے ظلم و ستم کی وجہ سے مسلمان سر نہ اٹھا سکے۔

ہم جب ریاست جموں و کشمیر کا جائزہ لیتے ہیں تو ڈوگرہ حکمرانوں کے دور میں 1924 تک سیاسی خاموشی نظر آتی ہے۔ یہ خاموشی 1924 میں اس وقت ٹوٹی جب سرینگر میں کام کرنے والے ریشم کے کارخانوں کے مزدوروں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی اور پوری ریاست نے ان کی آواز میں آواز ملائی اور یوں پوری ریاست سراپا احتجاج بن گئی، اس تحریک کو بھی ڈوگروں نے طاقت کے زور پر ختم کرنے کی کوشش کی، وقتی طور پر یہ تحریک کمزور ضرور ہوئی مگر اس کے بعد ریاست کے عوام میں بیداری آئی اور آزادی کا جذبہ توانا ہوا۔

ڈوگرہ حاکم کی کوشش رہی کہ ریاست کو بھارت کا حصہ بنایا جائے یا اس کی خود مختار حیثیت کو بحال رکھا جائے جبکہ مسلمانوں کا مطالبہ ریاست کو پاکستان کا حصہ بنانا تھا مگر ڈوگرہ تاخیری حربے استعمال کرتا رہا یہی وجہ ہے کہ 24 اکتوبر 1947 کو آزاد کشمیر میں آزاد حکومت کے قیام کے ساتھ ہی مجاہدین نے سرینگر کی طرف رخ کیا اور سرینگر تک کے علاقے پر قبضہ کرلیا اور مہاراجہ کشمیر دارالحکومت سے بھاگ کر جموں چلا گیا۔26 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کشمیر نے نہ صرف بھارت سے فوجی امداد طلب کی بلکہ بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست بھی دی اور بھارت چونکہ کشمیر پر قبضے لیے موقع کی تلاش میں تھا لہٰذا 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی افواج کشمیر پر قابض ہوگئیں، دوسری طرف پاکستان کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے مجاہدین کو آزاد کیا ہوا ایک بڑا علاقہ بھی خالی کرنا پڑا اور مجبوراً پسپائی اختیار کرنا پڑی، بھارت کشمیر میں اس وعدے کے ساتھ داخل ہوا تھا کہ امن کے قیام کے بعد کشمیر سے واپس چلا جائیگا مگر آج تک بھارت کی واپسی نہیں ہوئی۔دوسری طرف جب سرینگر میں بھارتی قبضہ ہوا اور آزاد کشمیر میں آزاد حکومت قائم ہوئی تو یکم نومبر 1947 کو گلگت میں بھی بغاوت ہوئی۔ ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر کے اسلامی جمہوریہ گلگت کی بنیاد رکھی گئی جبکہ بلتستان اور وادی گریز(تراگبل، قمری، کلشئی، منی مرگ) اور دیگر علاقوں میں 1948 تک جنگ جاری رہی۔ 16 نومبر 1947کو پاکستان نے اس پر کنٹرول کیا انگریز کے برصغیر سے جانے کے بعد کشمیریوں کو ڈوگرہ سے آزادی تو ملی مگر ریاست جموں و کشمیر کا ایک بڑا حصہ بھارتی غلامی میں چلا گیا۔ جب سے اب تک تنازع کشمیر پوری دنیا بالخصوص جنوبی ایشیا کے لئے ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

دنیا کے نقشے کو دیکھ کر قابل افسوس اگر کچھ ہے تو وہ کشمیر ہے یا یوں کہنا بھی مناسب ہوگا کہ 71 سال بعد بھی درحقیقت کشمیر کو آزادی کا سورج دیکھنا نصیب نہ ہو سکا۔ کشمیریوں نے آزادی کے لیے کئی لاکھ جانبازوں کی قربانی دی مگر عالمی قوتوں کی منافقت کے باعث آزادی کی یہ جنگ ظلم جبر اور تشدد کا نہ صرف سبب بنی بلکہ جنت نظیر وادی ایک فوجی کیمپ، خوف، مایوسی اور تاریکی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ کشمیر وہ خطہ ہے جس کی ماضی میں مثال خوبصورتی، سرسبز و شادابی، قدرتی حسن، بلند و بالا پہاڑ، دنیا کے بہترین پھلوں، میووں، برف پوش پہاڑی سلسلوں، حسین وادیوں، یہاں کے باسیوں کے مثالی اخلاق اور جفاکشی، اسلام دوستی، محبت و بھائی چارہ، دنیا کے مختلف خطوں میں کشمیری نوجوانوں کی مثالی خدمات اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حوالے سے دی جاتی تھی اور کشمیر کا ذکر آتے ہی انہی چیزوں کا تصور ذہن میں آتا تھا مگر آج جب کوئی شخص کشمیر کا ذکر کرتا ہے تو فوراً جلائو گھیرائو، فوجی کیمپ، عورتوں کی عصمت دری، خوف، ظلم و ستم، تشدد، غلامی، مایوسی، قتل و غارت، بچوں کا تاریک مستقبل، تقسیم در تقسیم لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور بھارتی تسلط کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ تاہم اس سب کچھ کے باوجود کشمیریوں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے۔ بے انتہا جانی و مالی نقصانات کے باوجود کشمیر کے عظیم سپوتوں نے اپنی آزادی کا سودا نہیں کیا۔

پاک و ہند کی آزادی کے 71 سال بعد بھی دونوں ملکوں کے آپسی تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں جس کی وجہ صرف کشمیر ہے، آزادی ہر فرد کا بنیادی حق ہے، کشمیری عوام کب تک بھارت کا ظلم و بربریت برداشت کریں، عالمی سطح پر اس حوالے سے آواز اٹھائی جاتی ہے تاہم بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دینے سے گریزاں ہے۔دوسری جانب 71 سال گزرنے کے باوجود کشمیریوں کا عزم اور حوصلہ برقرار ہے اور ان کی جدوجہد آزادی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ بھارت کا ہر ظلم ان کے جذبہ حریت کو مزید بھڑکا دیتا ہے اور ہر سال سیکڑوں کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادی کی شمع کو روشن رکھتے ہیں۔

Muhammad Asif Tabassum

Muhammad Asif Tabassum

تحریر : محمد آصف تبسم