کشمیر میں کنٹرول لائن پر موت کی گھن گرج محتاط خاموشی میں ڈوب گئی

Kashmir Line of Control

Kashmir Line of Control

کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کے متنازعہ اور منقسم خطے میں فریقین کے مسلح فوجی آج بھی اپنے اپنے بنکروں میں موجود ہیں مگر کنٹرول لائن پر زور دار دھماکوں سے ان کی گولے اگلتی توپیں کافی عرصے بعد اب خاموش ہو گئی ہیں۔

کشمیر میں کنٹرول لائن کا فوجی علاقہ دونوں حریف ہمسایہ ممالک کے مابین عملاﹰ سرحد کا کام دیتا ہے مگر اس فوجی لکیر کے آر پار دونوں ایٹمی طاقتوں کے فوجیوں کے مابین ایک دوسرے پر گولہ باری اور فائرنگ کی تاریخ اتنی پرانی ہے کہ اب اس علاقے کی زمین بھی بارود کی بو اور انسانی خون کی رنگت سے مانوس ہو چکی ہے۔

لیکن یہ سب کچھ اس علاقے کی مقامی سول آبادی، کشمیری عوام اور مجموعی طور پر جنوبی ایشیا میں دیرپا قیام امن اور خوشحالی کی ضامن ترقی کے لیے بڑا خطرہ اور مستقبل کے لیے ایک برا شگون ہی رہا ہے۔

کنٹرول لائن پر اب تک پاکستان اور بھارت کے سینکڑوں فوجی مارے جا چکے ہیں۔ اس عسکری لکیر کے قریب رہنے والے انسان فوجی ہتھیاروں اور توپوں کی گھن گرج کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ دھماکوں اور فائرنگ کا نا ہونا انہیں غیر معمولی محسوس ہوتا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر گزشتہ کچھ عرصے سے فریقین کی توپیں اور مشین گنیں چپ ہیں اور موت کی گھن گرج ایک محتاط خاموشی میں ڈوب چکی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔

کنٹرول لائن کے قریب رہنے والے عام شہری فوجی ہتھیاروں اور توپوں کی گھن گرج کے عادی ہو چکے ہیں

ایک تو 2003ء میں طے پانے والا وہ سیز فائر معاہدہ، جس کے دوبارہ اور دو طرفہ احترام کا دونوں ممالک نے گزشتہ ماہ ایک بار پھر اعادہ کیا اور دوسری وہ امن کوششیں جو اسلام آباد اور نئی دہلی کے تعطل کے شکار باہمی تعلقات میں نئی تحریک پیدا کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔

سیز فائر کے احترام کا نیا مشترکہ عزم ایک بہت اچھی پیش رفت ہے، جس کے بعد مقامی آبادیوں اور سیاسی تجزیہ کاروں کی طرف سے یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ نئی پیدا ہونے والی امن کی یہ چھوٹی سی امید کتنی دیر تک قائم رہے گی اور اگر اسے پھلنے پھولنے کا موقع ملا تو وہ کب تک ایک ننھے سے پودے سے تناور درخت بن سکے گی؟

امریکا کی شکاگو یونیورسٹی کے سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور جنوبی ایشیا اور پاک بھارت تنازعے پر قریب سے نظر رکھنے والے ماہر پال سٹینی لینڈ کہتے ہیں کہ اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں کی باہمی سیز فائر کی اس تازہ ترین خواہش کے محرکات بڑے متنوع ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کنٹرول لائن پر جھڑپوں کی دونوں ممالک بہت بڑی انسانی اور مالیاتی قیمت چکا رہے ہیں، دونوں ہی کی معیشتیں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کورونا وائرس کی عالمگیر وبا سے متاثر ہوئی ہیں اور یہ دونوں ریاستیں اس امر سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ انہیں خارجہ پالیسی کے محاذ پر کتنے بڑے بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔

پال سٹینی لینڈ کے بقول یہ وہ متعدد متنوع عوامل ہیں، جن کی وجہ سے کشمیر میں کنٹرول لائن پر دونوں روایتی حریف ممالک کے ہتھیار کم از کم اس وقت مہلک گولہ بارود اگلنا بند کر چکے ہیں اور سیاسی سطح پر بھی تقریباﹰ دو سال بعد پاکستانی اور بھارتی دارالحکومتوں میں برف کچھ پگھلنا شروع ہوئی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر میں سیز فائر معاہدے پر عمل درآمد کے نئے عزم سے کچھ ہی پہلے بھارت اور اس کے اس سے بھی بڑے ہمسایہ ملک چین کے مابین یہ اتفاق رائے بھی ہو گیا تھا کہ دونوں ملک ایک دوسرے سے اس سرحدی تنازعے میں عسکری دوری پر چلے جائیں گے، جو کئی ماہ تک شدید کشیدگی اور مسلح صف آرائی کا سبب بنے رہنے کے علاوہ کئی بھارتی اور چینی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ بھی بنا تھا۔

چین کے پاکستان کے ساتھ روایتی دوستانہ تعلقات کو دیکھتے ہوئے کئی عسکری ماہرین کے مطابق بھارت کے لیے ایک وقت پر یہ خطرہ بھی پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں اس کی بیک وقت مختلف محاذوں پر اپنے دو ایسے حریفوں کے ساتھ جنگ نا شروع ہو جائے، جو آپس میں عشروں سے ایک دوسرے کے قریبی حلیف ہیں۔

اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سابق وائس چانسلر اور معروف مؤرخ صدیق وحید کہتے ہیں، ”ممکنہ طور پر یہ واشنگٹن اور بیجنگ کی طرف سے ڈالا جانے والا دباؤ ہے، جو نئی دہلی اور اسلام آباد کو اس طرف لے جا رہا ہے کہ وہ خطے میں جامع اور دیرپا قیام امن کے لیے قدم اٹھائیں۔‘‘

ان کے مطابق چین چاہتا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ فوجی کشیدگی کیبجائے اس بات پر زیادہ توجہ دے کہ چائنا پاکستان اقتصادی راہ داری منصوبے کے تحت پاکستان میں کی جانے والی بیسیوں ارب ڈالر کی چینی سرمایا کاری کا تحفظ کیا جائے۔ یہ منصوبہ زمینی راستے سے چین کے عالمی تجاری رابطوں میں توسیع کے لیے ضروری ہے۔

دوسری طرف بھارت کو امریکا کی طرف سے پاکستان کے ساتھ امن پیش رفت کے لیے دباؤ کا سامنا اس لیے ہے کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ نئی دہلی اپنی توانائی مجتمع رکھے اور اسے خطے میں چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کرے۔

بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔

اس کا ایک ثبوت امریکا کی قیادت میں بھارت، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل چار ممالک کا وہ نیا ابھرتا ہوا اتحاد بھی ہے، جو عرف عام میں ‘کُوآڈ‘ کہلاتا ہے اور جس کے پیچھے ماہرین کے مطابق امریکا کا مقصد چینی اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے۔

پاکستان اور بھارت کو امن کی طرف قدم بڑھانے پر مجبور کرنے والے عوامل جو بھی ہوں، یہ بات خوش آئند ہے کہ کشمیر میں کنٹرول لائن پر دونوں ممالک کی افواج کی توپیں خاموش ہیں۔ کم از کم اس وقت۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہی رہنے دیے جائیں اور امن کی خواہش کو گرم جوشی سے آگے بڑھایا جائے۔

اس عمل کو پاکستانی او بھارتی وزرائے اعظم کی طرف سے ایک دوسرے کو لکھے گئے حالیہ خطوط سے بھی مدد ملی اور سیاست، معیشت، تجارت اور کھیلوں کے شعبوں میں ایسے مزید رابطوں کی بحالی اس عمل میں اور زیادہ معاون ثابت ہو گی۔