کشمیر کا معاملہ کیوں اٹھایا؟ بھارت اقوام متحدہ کے صدر پر برہم

Kashmir Issue

Kashmir Issue

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کے بیان پر بھارت نے شدید نکتہ چینی کی ہے۔ ولکان بوزکر نے کہا تھا کہ پاکستان پر یہ لازم ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں زور شور سے اٹھائے۔

کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کے بیان پر بھارت نے شدید نکتہ چینی کی ہے۔ ولکان بوزکر نے کہا تھا کہ پاکستان پر یہ لازم ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں زور شور سے اٹھائے۔

بھارت کا کہنا ہے کہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ولکان بوزکر کے بیانات ناقابل قبول اور غیر ضروری ہیں۔ نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم بگچی نے ان پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیان قابل افسوس ہے: ” اور یقینی طور پر ا ن کا یہ طرز عمل عالمی فورم پر ان کی ساکھ کو کم کرتا ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موجودہ صدر ولکان بوزذکر کا تعلق ترکی سے ہے۔ وہ ترکی کی سیاست میں بھی سرگرم رہے ہیں جبکہ ایک طویل عرصے سے سفارت کاری کے کاموں پر بھی مامور ہیں۔

انہوں نے اسلام آباد میں پاکستانی وزیر خارجہ محمود قریشی کے ساتھ ایک مشترکہ کانفرنس کے دوران کہا، ”پاکستان پر تو یہ فرض ہے کہ وہ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو اور زیادہ مضبوطی سے اٹھائے۔‘‘

بوزکر نے جمعرات 27 مئی کو پاکستان کے تین روزہ دورہ کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس کے دوران مسئلہ کشمیر سے متعلق سوالات و جوابات کے دوران یہ بات کہی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ متنازعہ خطہ کشمیر کے حوالے سے یکطرفہ طور پر کسی بھی اقدام سے گریز کریں۔

ظاہر ہے کہ بھارت نے دو برس قبل دفعہ 370 کا خاتمہ کر کے کشمیر کی صورت حال بدل ڈالی ہے اور شاید اسی لیے اسے جنرل اسمبلی کے صدر کی یہ بات قطعی ناگوار گزری۔ اس کے رد عمل میں بھارت نے کہا، ”اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے موجودہ صدر کی جانب سے اس طرح کا گمراہ کن اور متعصبانہ بیان ان کے عہدے کے شان شایان نہیں ہے اور اس سے عالمی پلیٹ فارم اس ان کی مرتبت ماند پڑتی ہے۔‘‘

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم بگچی کا کہنا تھا، ”ان کا یہ کہنا کہ کشمیر کے مسئلے کو پاکستان اقوام متحدہ میں اور مضبوطی سے اٹھائے قطعی ناقابل قبول ہے اور عالمی سطح پر اس (کشمیر) کا کسی دوسری صورت سے حال کوئی مقابلہ بھی نہیں ہے۔‘‘

ادھر بھارتی وزير خارجہ ایس جے شنکر نے ایک بار پھر سے کشمیر میں شدت پسندوں کی در اندازی کے لیے پاکستان پر الزام عائد کیا ہے۔ امریکا میں ہوور انسٹیٹیوٹ کے ایک پروگرام کے دوران ان سے جب لائن آف کنٹرول پر فائرنگ سے متعلق سوال کیا گيا تو ان کا کہنا تھا، ”فائرنگ کی وجہ در اندازی ہے تو جب در اندازی رک جاتی ہے تو فائرنگ بھی بند ہو جا تی ہے۔‘‘

جے شنکر کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ سرحد پر سے ہونے والی دہشت گردی ہے۔ لیکن پاکستان نے ان کے اس بیان کو بھی سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کا یہ جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ اس کے برعکس، ”کشمیریوں پر بھارتی ظلم و بربریت کی وجہ سے خطے میں امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے سے انکار کرتا ہے جس کا اس نے خود عالمی برادری اور کشمیری عوام سے وعدہ کیا تھا۔‘‘

بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ کشمیر کی وجہ سے گزشتہ کئی برسوں سے رشتے اچھے نہیں ہیں اور فریقین کے درمیان کافی عرصے سے کسی سطح پر کوئی بات چيت یا روابط بھی نہیں ہیں۔ تاہم چند ہفتے پہلے دونوں ملکوں کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آئے تھے جس سے لگتا تھا کہ شاید دونوں میں بات چيت پھر شروع ہو سکے۔