کیا کشمیر میں نئے قوانین کا مقصد ہندو آبادکاری بڑھانا ہے؟

Kashmir

Kashmir

کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کے چند ماہرین نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں متعارف کردہ چند حالیہ قوانین پر تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ بھارتی حکومت نے ان کے تاثرات رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر سے وابستہ دو ماہرین نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انتظامی سطح پر تبدیلیاں، خطے کے مسلمانوں اور اقلیتوں کے سیاست میں کردار کو محدود کر سکتی ہیں۔ اقلیتوں کے مسائل کے لیے مختص خصوصی نمائندے فرنینڈ ڈی ویرانس اور آزادی مذہب کے خصوصی نمائندے احمد شہید کے مطابق حالیہ تبدیلیوں کے نتیجے میں خطے کے لوگ بطور اقلیت اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین میں تبدیلی نہیں کروا سکتے۔ دونوں ماہرین نے یہ بیان گزشتہ جمعرات کو جاری کیا۔ انہوں نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ خطے کے مسلمانوں اور اقلیتی گروپوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔

ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر سے وابستہ ان دو ماہرین کا بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا، جب اس سے ایک روز قبل ہی چوبیس ممالک کے مندوبین نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا اپنا کئی روزہ دورہ مکمل کیا۔ اگست سن 2019 میں نئی دہلی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد یہ غیر ملکی مندوبین کا اس نوعیت کا تیسرا دورہ تھا۔ خارجہ امور کی وزارت کے اہلکار اور مسلح گارڈز ہر وقت افریقہ اور یورپی یونین سمیت وسطی و جنوبی ایشیائی ممالک کے ان نمائندگان کے ساتھ تھے۔ بھارت کا دعوی ہے کہ ابتدائی بے چینی کے بعد اس کے زیر انتظام کشمیر میں حالات اب معمول کے مطابق ہیں جبکہ پڑوسی ملک پاکستان کا موقف اس کے برعکس ہے۔

بھارتی حکومت نے کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں بانٹ دیا اور انتظام وفاق کے ہاتھوں میں لے لیا۔ لیکن اس کے بعد سے کئی ایسے قوانین متعارف کرائے، جنہیں چند مبصرین متنازعہ مانتے ہیں۔ حال ہی میں متعارف کردہ ڈومیسائل سے متعلق قانون کے بارے میں چند مبصرین کا ماننا ہے کہ اس کا مقصد خطے میں ہندو آبادکاری کے ذریعے اس کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ اسی تناظر میں فرنینڈ ڈی ویرانس اور احمد شہید کا بیان بھی سامنے آیا۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر سے وابستہ ان ماہرین کے بیان کا جواب دیتے ہوئے بھارتی خارجہ امور کی وزارت کے ترجمان انوراگ سریواستوا نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ماہرین نے بیان جاری کرنے سے قبل بھارتی رد عمل و جواب کا انتظار نہ کیا۔ سریواستوا کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور اس کی حیثیت کی تبدیلی کا فیصلہ بھارتی پارلیمان نے کیا۔ سریواستوا نے ایسے تاثرات کو رد کیا کہ نئے قوانین کے ذریعے خطے کی ڈیموگرافی بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خارجہ امور کی وزارت کے ترجمان نے مزید کہا کہ ماہرین کو کسی نتیجے تک پہنچنے سے قبل کشمیر کے مسائل کو بہتر طریقے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔