کشمیر: پاکستان کے نئے نقشے پر بھارت کا اعتراض اور واک آوٹ

Pakistan and India

Pakistan and India

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان نے گزشتہ ماہ اپنا نیا نقشہ جاری کیا تھا جس کے استعمال پر بھارت کو سخت اعتراض ہے اور جب کہنے کے باوجود پاکستان نے نقشہ نہیں ہٹایا تو بھارتی وفد بطور احتجاج ایس سی او میٹنگ سے واک آوٹ کر گیا۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بار پھر بین الاقوامی فورم پر اس وقت شدید کشیدگی دیکھنے کو ملی جب بھارتی وفد نے پاکستان کے نئے نقشے کے خلاف بطور احتجاج شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی ایک میٹنگ سے واک آؤٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ روس کی قیادت میں شنگھائی تعاون تنظیم کی میٹنگ میں رکن ممالک کے قومی سلامتی کے مشیر شامل تھے۔

کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظرویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہونے والی اس میٹنگ میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے قومی سلامتی سے متعلق مشیر خصوصی معید یوسف نے بیک ڈراپ کے طور پر وہ نیا نقشہ استعمال کیا جس میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے متنازعہ خطے کو بھی پاکستان کا علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ تومیٹنگ کے دوران بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔

لیکن جب پاکستان نے اس نقشے کو اپنے بیک ڈراپ سے ہٹانے سے منع کردیا تو بھارتی وفد نے میزبان ملک روس سے اس کی شکایت اور پھر بطور احتجاج میٹنگ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستوا نے اس سلسلے میں ایک بیان جاری کر کے کہا کہ شنگھائی کوآپریشن تنظیم کے رکن ممالک کے قومی سلامتی کی مشیروں کی میٹنگ روس کی سربراہی میں ہو رہی تھی۔ ”اس میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے دانستہ طور پر اس افسانوی نقشے کو پروجیکٹ کرنے کی کوشش کی جس کا حالیہ دنوں سے وہ پروپیگنڈہ کرتے رہے ہیں۔ میزبان ملک کی جانب میٹنگ کے اصول و ضوابط کے تعلق سے جو ایڈوائزری جاری کی گئی تھی یہ اس کی صریحاًخلاف ورزی تھی اسی لیے اس پر اعتراض کیا گیا۔”

اس میٹنگ کی صدارت روس کے قومی سلامتی کے مشیر نکولائی پیترشیوؤف کر رہے تھے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا، ”میزبان ملک کے ساتھ اس معاملے پر صلاح و مشورہ کرنے کے بعد بھارتی وفد نے بطور احتجاج اسی مرحلے پر میٹنگ چھوڑی دی۔ پھر جیسا کہ ہمیں توقع تھی پاکستان نے اس میٹنگ سے متعلق گمراہ کن نظریات پیش کیے۔”

دوسری جانب پاکستان کی حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اسے شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستانی موقف کی یہ کہہ کر جیت قرار دیا کہ تنظیم کی جانب سے بھارتی اعتراضات کو تسلیم نہیں کیاگیا اور بھارت کے پرجوش جھوٹے دعوں کو مسترد کر دیا گیا۔ پارٹی نے اس سلسلے میں اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ”ایس سی او نے پاکستانی موقف سے اتفاق کیا اور ڈاکٹر معید یوسف پاکستان کے نئے نقشے کے ساتھ میٹنگ میں شریک ہوئے۔”

پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے چار اگست، یعنی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے ایک برس مکمل ہونے سے عین ایک دن پہلے، ملک کا ایک نیا ‘سیاسی نقشہ’ جاری کیا تھا۔ اس نقشے میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اسے پاکستان کی وفاقی کابینہ نے منظو ر کیا تھا اور حکومت پاکستان نے اس نئے نقشے کو اقوام متحدہ میں منظوری کے لیے پیش کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس نقشے کو اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں بھی شامل کرنے کی بات کہی گئی ہے اور عمران خان نے اسے ”پاکستان کا نیا قانونی نقشہ” قرار دیا ہے۔

پاکستان کے نئے نقشے میں جموں کشمیر اور لداخ کے متنازعہ علاقوں کے علاوہ گجرات کی سرکریک کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ تاہم بھارت نے اس نقشے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ یہ گھٹیا درجے کی سیاسی چال ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ میں غیر مصدقہ ذرائع سے اس طرح کی خبریں شائع ہوئی ہیں کہ میٹنگ کے سربراہ کے طور پر روس نے پاکستان کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی وہ اس نقشے کو نہ استعمال کرے تاکہ بھارت بھی اس میٹنگ میں حصہ لے سکے تاہم پاکستان نے نقشہ ہٹانے سے منع کر دیا۔

بھارت میں مودی کی حکومت نے گزشتہ برس ریاست جموں و کشمیر کو آئین کی دفعہ 370 کے تحت جو خصوصی اختیارات حاصل تھے اسے ختم کردیا تھا اور ریاست کا درجہ ختم کرتے ہوئے خطے کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کردیا تھا۔ اس کے بعد بھارتی حکومت نے کشمیر میں اضافی فوج تعینات کی اور سخت ترین سکیورٹی کے پہرے میں مہینوں کرفیو جیسی بندشیں عائد کیں۔ پاکستان اور چین سمیت دنیا کے بعض دیگر ممالک نے اس پر سخت اعتراض کیا تھا اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے بھارت پر نکتہ چینی کی بھی ہوئی ہے۔

ان واقعات کے بعد سے ہی پاکستانی حکومت ہر عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے اور شنگھائی کوآپریشن تنظیم کی اس میٹنگ میں بھی پاکستان نے تقریباً یہی کوشش کی۔