’کشمیر میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان سے مذاکرات ضروری‘، فاروق عبداللہ

Farooq Abdullah

Farooq Abdullah

کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ مذاکرات ضروری ہیں۔

نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ خطے میں ترقی کے لیے دوستی بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور اس علاقے میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنا ضروری ہے۔

سابق مرکزی وزیر فاروق عبداللہ نے کہا،”دہشت گردی کو کچل دینے کے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے دعوؤں کے برخلاف (جموں و کشمیر میں) دہشت گردی اب بھی موجود ہے۔ اگر آپ اسے ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے پڑوسی سے بات چیت کرنی ہوگی۔”

جموں و کشمیر سابق وزیر اعلی نے بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے اس مشہور جملے کا حوالہ بھی دیا جو واجپئی نے سن1998میں بھارت کے جوہری تجربے کے بعد کہتے تھے، ”ہم اپنے دوست بدل سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں۔ یا تو آپ دوستی اور خوشحالی کو مستحکم کریں یا پھر دشمنی برقرار رکھیں لیکن اس سے کوئی خوشحالی نہیں آئے گی۔”

19 فروری کو دہشت گردانہ حملے میں دو پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے سابق وزیر اعلی کا کہنا تھا،”یہ آج کی حقیقت ہے۔ میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ نئی دہلی اسی طرح کا اپروچ اختیار کرے جیسا کہ لداخ میں چین کے ساتھ تعطل کے معاملے پر اپنی فوج کو واپسی کے سلسلے میں کیا ہے۔ جموں و کشمیر سے بھی فوج کو اسی طرح ہٹانے کی ضرورت ہے۔”

فاروق عبداللہ نے حدبندی کمیشن کی میٹنگ کے بائیکاٹ کرنے کے اپنی پارٹی کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ”انہوں (بی جے پی حکومت) نے پانچ اگست 2019 ء کو جو کچھ کیا ہم نے اسے قبول نہیں کیا ہے۔ جب ہم نے اسے قبول نہیں کیا ہے تو ہم جموں و کشمیر کے لیے نئی حد بندی کمیشن کو کیسے قبول کر سکتے ہیں۔”

مرکزی حکومت نے پانچ اگست سن 2019 کو جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کر کے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کردیا تھا۔ اب مرکزی حکومت پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی کرنا چاہتی ہے۔ نیشنل کانفرنس کا کہنا ہے کہ یہ عمل غیر قانونی ہے۔

فاروق عبداللہ کا کہنا تھا،”میں نے خود (وزیر اعلی کی حیثیت سے) حدبندی کے اقدام کو موخر کیا تھا کیوں کہ ملک میں نئی حد بندی کا عمل سن 2026میں شروع ہوناہے۔ آخر ابھی حد بندی شروع کرنے کی کیا ضرورت پیش آ گئی؟ اگر یہ اتنا ہی ضروری ہے تو چند ریاستوں کے بجائے پورے ملک میں حد بندی کیوں نہیں کررہے ہیں؟”

سابق وزیر اعلی کے بقول، ”اگر حکومت پورے بھارت میں حد بندی شروع کرتی تو نیشنل کانفرنس اس میں بخوشی شامل ہوتی لیکن وہ جان بوجھ کر صرف جموں و کشمیر میں ایسا کر رہی ہے اسی لیے ہم اس کے خلاف ہیں۔”

فاروق عبداللہ نے کشمیریوں کے روایتی لباس ‘فیرن‘ پر پابندی عائد کرنے کے شدت پسند ہندو جماعت بجرنگ دل کے مطالبے کو افسوس ناک قرار دیا۔

فاروق عبداللہ نے کہا ”فیرن کشمیریوں کی شناخت ہے اور اگر کوئی اس کا غلط استعمال کرتا ہے تو اس کو بنیاد بناکر ا س پوشاک کو بدنام نا کیا جائے۔” ان کا مزید کہنا تھا”فیرن کے بغیر منفی دس ڈگری سیلسیس میں کوئی کیسے رہ سکتا ہے؟ ہم اس کے اندر کانگڑی رکھتے ہیں۔ کشمیری تو عسکریت پسندی کے عروج کے دوران بھی اسے پہنتے تھے،ہم فیرن کو کبھی ترک نہیں کرسکتے۔”

بتایا جاتا ہے کہ پچھلے دنوں پولیس پر حملہ کرنے والے ایک حملہ آور نے فیرن کے اندر ہتھیار چھپا رکھے تھے۔اس واردات کے بعد بجرنگ دل نے عام لوگوں کے فیرن پہننے پر پابندی لگانے کا مطالبہ دہرایا ہے۔

سن 2018میں مودی حکومت نے کشمیر میں سرکاری دفاتر میں فیرن پہننے پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔عام کشمیری اسے کشمیریوں کو ان کے صدیوں پرانے تشخص اور مخصوص شناخت سے محروم کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔