کشمیر میں سیاحوں کو جانے کی اجازت، بھارت

Kashmir Protest

Kashmir Protest

کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) تقریبا دو ماہ کے سکیورٹی کریک ڈاؤن کے بعد بھارتی حکام نے کہا ہے کہ جمعرات سے سیاحوں کو متنازعہ علاقے جموں و کشمیر میں جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔ تاہم اب بھی وہاں زیادہ تر علاقوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔

اگست میں بھارتی حکومت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی، جس کے بعد ہزاروں سیاح، زائرین اور ملازمین اس مسلم اکثریتی علاقے سے نکل گئے تھے۔ نئی دہلی حکومت نے سکیورٹی الرٹ جاری کیا تھا کہ کشمیری عسکریت پسند حملے کر سکتے تھے۔

نئی دہلی حکومت کی طرف سے تب سے کمشیر میں سکیورٹی کریک ڈاؤن جاری ہے۔ وہاں اگست کے اوائل میں ہی ہزاروں اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات کرتے ہوئے کشمیری شہریوں کی نقل و حرکت کو انتہائی محدود بنا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی ماہرین کے مطابق بھارت کی طرف سے سیاحوں کے لیے سفری پابندیاں ختم کرنے کا اعلان صرف ایک علامتی اقدام ہے کیوں کہ خراب سیاسی حالات اور سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے کوئی بھی سیاح اس علاقے میں جانے کی کوشش نہیں کرے گا۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ نئی دہلی کی جانب سے یہ اعلان یہ تاثر دینے کی کوشش ہے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق جموں و کشمیر کی نیشنل کانفرنس پارٹی کے کچھ اراکین کو بھی اپنی سینئر قیادت سے ملاقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔ کشمیر کی زیادہ تر سیاسی قیادت کو کریک ڈاؤن کے آغاز میں ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز اگست کے بعد سے ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کر چکی ہیں اور گرفتار شدہ نوجوانوں کو ملک کی دور دراز جیلوں میں رکھا جا رہا ہے۔

کشمیر میں سیاحوں کے لیے سفری پابندیاں ختم کرنے کا اعلان جموں و کشمیر حکومت کی جانب سے پیر کے روز کیا گیا تاہم زیادہ تر حصوں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس اب بھی معطل ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے رابطے کرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔

بھارت کے زیر انتظام جموں و کمشیر کے گورنر ستیاپال ملک کا کہنا تھا کہ سفری پابندیاں سکیورٹی اداروں کے ساتھ مشاورت کے بعد ختم کی جا رہی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں کرفیو بتدریج ختم کیا جا رہا ہے اور مختلف علاقوں میں عائد پابندیاں آہستہ آہستہ اٹھائی جائیں گی۔

کمشیری ایک عرصے سے بھارت کے خلاف اپنے جد و جہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور 1989ء سے اب تک وہاں محتاظ اندازوں کے مطابق بھی چالیس ہزار سے زائد افراد ہلاک مارے جا چکے ہیں۔