کشمیری علیحدگی پسندوں کا نیا ہتھیار، چپکو بم بھارتی فورسز کے لیے نیا درد سر

Bomb

Bomb

کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی حکام کو خدشہ ہے کہ ریموٹ کنٹرول کی مدد سے چلنے والے چھوٹے سائز کے بم بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندی کو ایک نئی تحریک دے سکتے ہیں۔ ایسے بموں کو چپکو بم کہا جا رہا ہے۔

چھوٹے، مقناطیس کی مدد سے گاڑیوں سے چپک جانے والے اور ریموٹ کنٹرول کی مدد سے چلنے والے ‘اسٹکی یا ‘چپکو بم ان دنوں بھارتی حکام کے لیے ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک پولیس افسر وجے کمار کے بقول ایسے بم اپنی چھوٹی ساخت کے باوجود کافی طاقت ور ہوتے ہیں۔ وجے کمار نے بتایا، ”ایسے بموں کی آمد اور استعمال سے کشمیر میں سکیورٹی کی صورتحال ضرور متاثر ہو گی کیونکہ اس خطے میں پولیس اور سکیورٹی دستوں اپنی گاڑیوں میں کافی زیادہ نقل و حرکت کرتے ہیں۔

‘اسٹکی بم کی اصطلاح ایسے بموں کی لیے استعمال کی جا رہی ہے جو اپنے ہدف کے ساتھ چپکنے کے صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے دور سے ہی دھماکا کیا جا سکتا ہے۔ ایسے بم افغانستان میں تواتر سے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں ججوں، سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں، صحافیوں اور مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ایسے ہی بم استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ایک طرف تو ان سے سویلین ہلاکتوں میں کمی آئی ہے مگر ساتھ ہی خوف کا احساس بھی بڑھ گیا ہے۔

کشمیر میں حال ہی میں ایک کارروائی کے دوران پندرہ ایسے بم برآمد ہوئے۔ ایک بھارتی سکیورٹی اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ پکڑے گئے تمام بم کشمیری ساخت کے یا مقامی سطح پر تیار کردہ نہیں تھے۔ اس اہلکار نے دعوی کیا، ”ان سب کو سرنگوں کے ذریعے یا ڈرون طیاروں کی مدد سے پہنچایا گیا تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق غالبا اس بھارتی اہلکار کا اشارہ یہ تھا کہ یہ بم شاید روایتی حریف ملک پاکستان سے اسمگل کیے جا رہے ہیں۔

کشمیر کے ایک حصے کا انتظام بھارت کے پاس ہے اور ایک حصے کا پاکستان کے پاس۔ دونوں ملکوں کے کشیدہ تعلقات کی ایک کلیدی وجہ کشمیر پر اختلافات ہیں۔ بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان علیحدگی پسندی کی تحریک کی عسکری پشت پناہی کرتا ہے جبکہ پاکستان اس الزام کو مسترد کرتا آیا ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر دنیا کے ان خطوں میں شامل ہے جہاں تعیات فوجی دستوں کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے۔ 2019 میں اس خطے کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے اور مقامی سطح پر احتجاجی تحریک کے باعث کشمیر میں مزید فوجی دستے تعینات کر دیے گئے تھے۔

حکام کو خدشہ ہے کہ ‘اسٹکی یا ‘چپکو بم مقناطیس کی مدد سے باآسانی سکیورٹی دستوں کی گاڑیوں سے چپک سکتے ہیں اور یوں ایسی گاڑیاں آسان ہدف بن سکتی ہیں۔ چوں کہ کشمیر میں بھارتی فوج اور فوجی ساز و سامان کی نقل و حرکت معمول کی بات ہے، اس لیے یہ سب مسلح علیحدگی پسندوں کے ہدف ہو سکتے ہیں۔

وجے کمار کا کہنا ہے کہ نئی طرز کے اس ہتھیار کے تناظر میں حکام اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ رکاوٹیں کھڑی کر کے فوجی اور نجی ٹریفک کے راستوں میں فاصلہ بڑھایا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی حساس علاقوں میں اضافی کیمرے بھی نصب کیے جا رہے ہیں۔ فوجی قافلوں کی نقل و حرکت کے نگرانی کے لیے ڈرون بھی استعمال میں ہیں۔