خاشقجی قتل کیس: سعودی عرب کے خلاف امریکا کا خاموش رد عمل

Jamal Khashoggi

Jamal Khashoggi

سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق رپورٹ کے بعد امریکا کا کہنا ہے کہ اس کی توجہ سعودی عرب کے “آئندہ طرز عمل” پر مرکوز ہے۔

امریکی وزارت خارجہ نے پیر یکم مارچ کو ایک بیان میں کہا کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کے خلاف ظلم و ستم سے امریکا اور سعودی مملکت کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔

امریکا نے چند روز قبل ہی واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق اپنے خفیہ اداروں کی ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق ان کے قتل اور پھر تمام شواہد کو تلف کرنے کی منظوری سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ہی دی تھی۔ تاہم اس کے باوجود بھی سعودی عرب کے ساتھ امریکا کا اپنے تعلقات منقطع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

امریکا نے سعودی عرب سے اپنے ‘ریپیڈ انٹروینشن فورس’ پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکا کے مطابق سعودی عرب اس سریع الحرکت فورس کا استعمال اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے کرتا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا، ”امریکا کا ہدف تھا ”مستقبل میں اس طرح کا جرم دوبارہ نہ ہونے پائے۔ ہمارا ارادہ شراکت کو مزید مستحکم کرنا ہے۔” انہوں نے مزید کہا”ہم مستقبل کے طرز عمل پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہے ہیں اور اس واقعے کو بطور تخریب نہیں بلکہ بازیافت کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔”

امریکا نے سعودی عرب سے ایسی اصلاحات متعارف کرنے کو کہا ہے جس سے مخالفین کے خلاف آپریشن کی ضرورت نہ پڑے اور یہ عوامل خود ہی مکمل طور پر ختم ہو جائیں۔

امریکا نے جمعے کے روز جمال خاشقجی کے قتل کے لیے سعودی عر ب پر بعض پابندیوں کا اشارہ دیاتھا۔ اس وقت صدر بائیڈن نے کہا تھا، ” ہم سعودی عرب کے ساتھ عمومی طور پر کیا کرنے والے ہیں اس کا اعلان ہم پیر یکم مارچ کو کریں گے۔”

نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ امریکا نے خاشقجی قتل کے حوالے سے 76 سعودی شہریوں پر امریکا میں داخلے پر پہلے ہی سے پابندی عائد کر رکھی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا، ”جو ممالک بھی صحافیوں، کارکنان اور مخالفین کو ماورائے عدالت ہرساں کرتے یا پھر انہیں نشانہ بناتے ہیں وہاں انسانی حقوق سے متعلق دستاویزات اور ایسے واقعات کی سالانہ رپورٹ کو مزید بہتر کرنے کا عہد کیا گیا ہے۔”

امریکا نے جمال خاشقجی قتل سے متعلق جو خفیہ دستاویزات عام کی ہیں اس کے مطابق ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے معاونین ان کے حکم کے بغیر اس طرح کا آپریشن نہیں کر سکتے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے، ”ولی عہد، جمال خاشقجی کو سلطنت کے لیے ایک خطرہ تصور کرتے تھے اور اسی لیے اگر ان کو خاموش کرانے کے لیے تشدد کی بھی ضرورت پڑے تو وہ اس کے بھی قائل تھے۔”

امریکی خفیہ اداروں نے 2018 میں ہی یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ جمال خاشقجی کا قتل محمد بن سلمان کی ایما کے بغیر اتنا آسان نہیں تھا۔ تاہم ٹرمپ کے دور اقتدار میں اس رپورٹ کو دبا کر رکھا گیا تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب نہ ہوں۔ ٹرمپ کی انتظامیہ انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے سعودی عرب پر نکتہ چینی سے گریز کیا کرتی تھی۔

واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی جمال خاشقجی شہزاد ہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں اور اقتدار پر ان کی گرفت پر نکتہ چینی کے لیے معروف تھے۔ انہیں 2018 میں استنبول میں سعودی عرب کے سفارت خانے کے اندر قتل کر دیا گیا تھا۔ سعودی عرب نے اس قتل کے لیے پانچ افراد کو بیس بیس برس قید کی سزا سنائی تھی۔

دو ہزار پندرہ میں محمد کے والد سلمان کے بادشاہ بننے کے بعد سے ہی محمد بن سلمان کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہوتی گئی۔ سعودی حکومت کی باگ ڈور ایک طرح سے انہیں کے ہاتھوں میں ہے۔ان کے پاس وزارت دفاع سمیت کئی اہم وزارتیں بھی ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ جب سے محمد بن سلمان نے سعودی عرب کے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے اسی وقت سے مملکت میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں بھی مزید اضافہ ہو نا شروع ہے۔

ان پر نکتہ چینی کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یمن پر انہوں نے ہی موجودہ مہلک جنگ مسلط کر رکھی ہے اور قطر کی ناکہ بندی بھی انہوں نے ہی کروائی تھی۔