خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی، طلبا کے لیے مسئلہ

Pakistan Tribal Youth Forum Protest

Pakistan Tribal Youth Forum Protest

خیبر پختونخوا (اصل میڈیا ڈیسک) قبائلی علاقوں میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی طلبا کے لیے بڑا مسئلہ ہے تاہم تعلیمی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ ان کی وجہ سے نہیں جبکہ حکام کہہ رہے ہیں کہ سکیورٹی اداروں کی منظوری کے بعد ان علاقوں میں ٹاورز لگائے جائیں گے۔

کووڈ انیس کی وبا کے باعث دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی تعلیمی اداروں کی بندش کے نتیجے میں طلبا کا سال ضائع ہونے سے بچانے کے لیے کئی تعلیمی اداروں میں میں آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے باعث ان اضلاع میں بسنے والے طلبا کو مشکلات کا سامنا ہے۔

صوبے کی کئی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبا نے اپنے مسائل حکومت تک پہنچانے کے لیے صوبے کے مختلف اضلاع میں مظاہرے بھی کیے، جو اب بھی جاری ہیں۔ کچھ طلبا اس مسئلے کو عدالت بھی لے کر گئے، جہاں عدالت نے وفاقی حکومت کو ضم شدہ اضلاع میں انٹرنیٹ کی بحالی کے احکامات جاری کیے۔ اس کے بعد جنوبی وزیرستان کی انتظامیہ نے وانا کے علاقے چگ ملائی، موسی نیکا اور مولا سرائے میں محدود پیمانے پر کچھ انٹرنیٹ کیفوں کا انتظام بھی کیا لیکن انٹرنیٹ کے سگنل محدود ہونے کی وجہ سے جنوبی وزیرستان کے طلبا آن لائن کلاسز کے لیے دوسرے اضلاع میں رہنے پر مجبور ہیں۔

ایبٹ آباد کی ایک نجی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تین دوست ڈیرہ اسماعیل خان میں یومیہ تین ہزار روپے پر ایک کمرہ لے کر اکھٹے رہ رہے ہیں تاکہ آن لائن کلاسز لے سکیں۔ انہی میں سے ایک طالب علم فرمان اللہ نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ہوٹل میں کھانا بھی خود بنانا پڑتا ہے کیونکہ وہ روزانہ باہر سے کھانا خریدنے کی حیثیت نہیں رکھتے۔ علاوہ ازیں وزیرستان کے ٹھنڈے علاقوں کے افراد کے لیے ڈیرہ اسماعیل خان کی گرمی میں رہنا بھی ایک مشکل کام ہے۔

تنائی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے بلال وزیر، جو پرائیویٹ یونیورسٹی میں بی بی اے کے طالب علم ہیں، نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ لاک ڈان کی وجہ سے پہلے بھی ان کے کافی اسائنمنٹ اور لیکچرز مس ہو گئے تھے۔ اس لیے انہوں نے سوچا کہ مزید نقصان اٹھانے کی بجائے تین دوست اکھٹے کمرہ لے کر کام چلا لیں۔ انہی کے ایک اور دوست سردار روئف نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ان کی یونیورسٹی والے پوچھتے ہیں، ”آپ کے علاقوں میں انٹرنیٹ کیوں نہیں۔ اب ہم ان کو کیا بتائیں کہ وہاں انٹرنیٹ کیوں نہیں ہے۔

باجوڑ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے پرائیویٹ یونیورسٹی کے طالب علم اور ٹرائیبل یوتھ فورم کے مرکزی چیئرمین ریحان زیب نے طلبا کے ساتھ ضلع باجوڑ کے ہیڈ کواٹر خار میں قبائلی اضلاع میں تھری جی فور جی انٹر نیٹ کی بندش کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے میں قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سروس کی بحالی، ایچ ای سی کی پالیسیوں کے جائزے اور قبائلی اضلاع میں آن لائن کلاسز کی سہولت کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان علاقوں کے طلبا کی پروموشن کے قوائد میں نرمی کے مطالبات شامل تھے۔

ریحان زیب نے بتایا کہ اگرچہ باجوڑ کے علاقے خار اور سالارزئی میں انٹرنیٹ سگنل ہیں لیکن وہ اس قابل نہیں کہ اس پر آن لائن کلاسز لی جا سکیں جبکہ ضلعے کے باقی حصوں میں تو یہ سہولت بھی نہیں اور باقی قبائلی اضلاع بھی تھری جی فور جی انٹر نیٹ کی سہولت سے سن 2016 سے محروم ہیں۔ ریحان زیب نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر حکومت نے اس مسئلے کا حل نہ نکالا، تو قبائلی اضلاع کے 25 ہزار طلباکا مستقبل دا پر لگ جائے گا۔

مسئلہ یقینا گمبھیر ہے لیکن کیا اعلی تعلیمی اداروں میں بیٹھے افراد کو اس کا ادراک ہے؟ اس بارے میں جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو اردو نے پشاور یونیورسٹی کے جرنل ازم ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین فیض اللہ جان سے بات کی، تو انہوں نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق ان کی یونیورسٹی میں قبائلی اضلاع کے طالب علموں کی تعداد ہر کلاس میں چار فیصد ہے۔ اب ان کی آن لائن کلاسز سے محرومی یقینا قابل تشویش ہے لیکن یہ پالیسی یونیورسٹیسز نے نہیں بنائی اس لیے وہ قصور وار ہر گز نہیں۔

فیض اللہ جان نے بتایا کہ انہوں نے کورونا وائرس کے دوران کلاسز کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے لیکن قبائلی اضلاع اور چترال کے طالب علم اس میں حصہ نہیں لے پا رہے ۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دنوں ایک کلاس کے دوران ایک طالب علم نے بتایا کی وہ کہیں روڈ پر کھڑے ہو کر کلاس لے رہا ہے کیونکہ یہاں سگنلز اچھے آتے ہیں۔ اب کوئی کتنی دیر روڈ پر اس گرمی میں کھڑا رہ سکتا ہے۔ فیض اللہ جان کا کہنا تھا کہ ان کے ڈپارٹمنٹ کے اساتذہ ایسے طلبا کے لیے لیکچرز محفوظ کر لیتے ہیں تاکہ وہ کسی ایک وقت میں کہیں جاکر اپنے ای میل کے ذریعے اسے حاصل کر سکیں۔

وزارت داخلہ سے جب اس اہم مسئلے پر رائے مانگی گئی، تو ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سکیورٹی اداروں کی منظوری کے بعد وہاں ٹاورز لگائے جائیں گے۔ پہلے بھی کچھ ٹاورز لگائے گئے تھے جو کے شر پسندوں نے تباہ کر دیے۔ اور جب ڈی ڈبلیو نے پوچھا کہ جہاں ٹاورز ہیں وہاں کا کیا، تو دوسری طرف خاموشی ہی ملی۔