اغواء شدہ صحافت کو بازیاب کروایا جائے

Journalism

Journalism

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر

مولانا ظفر علی خان سے لے کر آج تک جب صحافت پہ نظر پڑتی ہے تو بہت کچھ اپنی سوچوں میں اتھل پتھل ہوتی ہوئی محسوس کرتا ہوں ماضی میں جتنے بھی صحافیوں پر نگاہ پڑتی ہے تو جو چیز سب سے پہلے نظر آتی ہے وہ ہے ان کی پیشہ وارانہ سوچ اور اپنے پیشے کی حرمت پر مکمل عبور وہ لوگ تربیت یافتہ اور صحافتی اقدار کے پاسبان نظر آتے ہیں ۔مولانا ظفر علی خان،آغا شورش کاشمیری ،حمید نظامی ،میر خلیل الرحمان ،اطہر قاضی ،حنیف رامے ،محمود شام ،اور ان کے دور کے اور بہت سارے معتبر نام جو اپنے شعبے کی حرمت کی پاسبانی کرتے ہوئے ضمیر کو برائے فروخت نہیں رکھتے تھے بلکہ اصولی صحافت ان کا خاصہ تھی میں سمجھتا ہوں کہ صحافت کا یہ ایک سنہرا دور تھا اس سے اگلا دور جب شروع ہوا تو وہ صحافت کے پھنے خان بن بیٹھے جن کا مطمع نظر صرف پیسے کا حصول تھا اس دور میں ایسے لوگ آگے آئے جنہوں نے سب سے پہلے نمائیندگان کو پیسہ مہیا کرنے والی مشین سمجھ کر ان سے پیسے بٹورنا اپنا نصب العین بنا لیا ایسے لوگوں نے سب سے پہلے میدان عمل میں جو صحاتی نمائندے شب و روز خبر کے لئے سرگرداں تھے یا یوں کہوں کہ بھوک ،دھوپ ،بارش ،آندھی طوفان ،اور مشکل ترین حالات میں جو صحافتی کارکن شب و روز میں فرق سمجھے بغیر اپنے اداروں کو خبریں بہم پہنچاتے انہیں کچھ دینے کی بجائے ان سے لینے کے اصول پر چلنا شروع کر دیا ادارے کی نمائندگی کے لئے کسی تجربے یا تعلیم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یا پیشہ وارانہ مہارت کو پس پشت کرتے ہوئے جو بھی اس میدان میں آنے کا خواہشمند دیکھائی دیا۔

اس سے نمائندگی کے کارد کی باقاعدہ قیمت وصول کرنے لگے جو کہ سینکڑوں روپے سے شروع ہوکر لاکھوں تک رکھ دی گئی یہیں پہ ہی بس نہیں کی بلکہ موبائل لوڈ سے شروع ہوکر مختلف شکلوں میں نمائندے سے پیسے بٹورنا معمول بنا لیا ایسے ہوس زر کے طالب لوگوں کی وجہ سے جو سب سے پہلا نقصان شعبہ صحافت کو پہنچا وہ یہ تھا کہ پیشہ وارانہ مہارت والے لوگ اس شعبے سے کنارہ کش ہوگئے اور پھر وہ لوگ اس مقدس پیشے میں آن وارد ہوئے جن کا اس شعبے سے دور دور تک واسطہ نہیں تھا بلکہ وہ اپنے سیاہ کو سفید کرنے اس شعبے کی آڑ لینے کے لئے صحفت میں گھس آئے اور یہی شعبہ صحافت کی تباہی کا نقطہ آغاز تھا کیونکہ جو اس مقدس پیشے میں پیشہ وارانہ صحافت کے حامل تھے وہ اداروں کے مطالبات زر پورے نہیں کر سکتے تھے اور جو قبضہ مافیا ،ناجائز فروش ،ملاوٹ مافیا ،تھا وہ پیسے کی سیڑھی لگا کر آسمان صحافت پر کمند ڈال کر آگے آگئے اب چونکہ وہ سرمایہ کاری کر کے آئے تھے سرمایایہ دار تھے۔

انہوں نے تو اپنے کالے کرتوتوں کو چھپانے کے لئے صحافتی کارڈ حاصل تھے وہ کیا جانیں کہ خبر کیسے حاصل کی جاتی ہے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں خبر کے حصول کے لئے ؟ایسے لوگوں نے تو صرف اپنا گھنائونا چہرہ چھپانے کے لئے صحافت کا نقاب اوڑھ رکھا ہے صحافت کی حرمت کو وہ کیا جانیں ؟اور یوں قبضہ مافیا نے پیسے کے بل بوتے پر صحافت کو اغواء کر لیا اب عصر حاضر میں صحافت ایک مافیا کے گھر کی باندی ہے اور بس ۔ مافیا کے پروردہ لوگ کلی طور پر مافیا کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اپنی دولت کو ڈھیر سے ڈھیروں میں بدل رہے ہیں اگر کو صحافی یہاں کسی کی کرپشن یا جرم سے پردہ اٹھاتا ہے تو سب سے پہلے اسکو جس کے فون آتے ہیں وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے صحافت کو اغواء کر رکھا ہے ان کا طریقہ واردات کچھ اس طرح ہے کہ پہلے اس پروفیشنل صحافی کو پیار سے کہتے ہیں کہ یار وہ بندہ اپنے تعلق والا ہے اس سے ہاتھ اٹھا لو ہم بھی صحافی ہیں اور صحافی کی صحافی کو مان لینی چاہیئے مگر جب اگلا بندہ یہ کہتا ہے کہ جناب میں نے سچی خبر دی ہے جس کے ثبوت بھی ہیں میں کیسے سچ کو چھپائوں تو پھر مافیا کے طفیلئے یہ نام نہاد صحافی اوچھی حرکتوں پر اتر آتے ہیں اسے طرح طرح سے بلیک میل کرنا شروع کر دیتے ہیں دھمکیاں دینے لگ جاتے ہیں۔

بالآخر وہ سچی خبر دینے والا اپنی جان اور ناموس بچانے کے لئے خاموش ہوجاتا ہے اس طرح جرائم پیشہ لوگ اپنے مقاصد میں کامیاب تو ہوجاتے ہیں مگر صحافتی اقدار کو پامال کر دیا جاتا ہے ابھی گزشتہ دنوں کی بات ہے جب ایک نوجوان صحافی نے جو اپنی محنت کے بل بوتے پر آگے آیا تھا اس نے اپنی شاموں کو رنگین کرنے والے بدکرداروں کو بے نقاب کیا تو اسے صحافت کے نقاب اوڑھنے والے نام نہاد صحافیوں نے جو خود بہت اپروچ رکھتے ہیں نے تحفظ دینے کی بجائے اسقدر ڈرایا دھمکایا اور ناجانے کس بدترین طریقے سے بلیک میل کیا کہ اس نوجوان نے اپنے بیان سے پیچھے ہٹنے میں ہی عافیت سمجھی حالانکہ اس کے پاس تمام ثبوت تصویری اور ویڈیو کی صورت میں موجود ہونے کے باوجود خوفزدہ ہوکر اپنے مئوقف سے پیچھے ہٹنا پڑا دوسری بات یہ کہ ادارے بھی سچے صحافی کو تحفظ نہیں دیتے بلکہ مک مکا کر کے کہہ دیتے ہیں کہ جناب یہ معاملہ اس صحافی کا ہے ہمارا نہیں وہ جانے اور مافیا جانے تمام ثبوٹوں کے ہوتے ہوئے بھی ادارہ اپنے کارکن کو تحفظ فراہم کرنے سے گھبراتا ہے جو صحافتی اقدار کی توہین ہے جو کھرے رپورٹر کی تذلیل ہے۔

کوئی ایک نہیں بلکہ ایسے بیسیوں واقعات ہوئے جب ادارے نے اپنے ہی نمائندے کی ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے باوجود اس کی ذمہ داری نہیں لی اور اسے تحفظ فراہم کرنے کی بجائے ادارے سے فارغ کر کے اسے بے دست و پا کر دیا جاتا ہے اسطرح وہ بیچارہ مافیا کے رحم و کرم پر ہوتا ہے مار دیا جاتا ہے یا اس قابل نہیں چھوڑا جاتا کہ وہ اپنے فرائض کو مبنی بر حقائق ادا کر سکے خدارا صحافتی کارد جاری کرنے سے پہلے اداروں کو چاہئے کہ وہ کس شخص کو کارڈ جاری کر رہے ہیں جو کارڈ کے حصول کے لئے پچاس ہزار سے دس لاکھ تک بھرنے پر آمادہ ہورہا ہے باوجود اس کے کہ کوئی تنخواہ وغیرہ نہیں ملے گی تو وہ کیوں اتنی بھاری رقم خرچ کر رہا ہے کہیں وہ صحافت کی آڑ میں کوئی کالا دھندہ تو نہیں کرنا چاہتا یا کر رہا ہو اور تحفظ دینا چاہتا ہو ؟اس مقدس پیشے کی اقدار کو بچانے کے لئے حقیقی صحافی کو آگے لانا پڑے گا اور حقیقی صحافی خطیر رقوم پیش نہیں کر سکتا خدارا صحافتی ادارے اور حکومت وقت صحافت کو ایسے مافیا سے بازیاب کروانے میں اپنا کردار ادا کریں ان شاء اللہ جلد ہی بہت سے مافیا کنگز کے چہروں کی نقاب کشائی کرونگا کہ جن کا صحافت سے واسطہ نہیں مگر صحافت کے کرتا دھرتا بن کے بیٹھے ہوئے ہیں۔

Dr M H Babar

Dr M H Babar

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile:03344954919
Mail:mhbabar4@gmail.com