قانون اور انسانیت کی تذلیل

Law

Law

تحریر : شیخ توصیف حسین

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سردی کے موسم میں کسی کے گھر مہمان آ گیا میزبان نے مہمان کو کھا نا کھلانے کے بعد مہمان کو رات کے وقت سونے کیلئے جو رضائی دی وہ بہت چھوٹی تھی مہمان اگر اُس رضائی کو منہ پر ڈالتا تو پائوں ننگے ہو جاتے اور اگر وہ اُسے اپنے پائوں پر ڈالتا تو منہ ننگا ہو جاتا جس پر اُس نے اسی کشکمش میں اپنے میزبان کو بلا کر اس بارے آگاہ کیا میزبان اس بات کی آ گاہی کے بعد کچھ سوچتا ہوا باہر چلا گیا اور باہر سے ایک چھڑی اُٹھا کر واپس آکر مہمان کو کہنے لگا کہ اب تم رضائی کو اپنے منہ پر ڈالو پائوں پر میں اسے پورا کرتا ہوں یہ سننے کے بعد مہمان نے رضائی کو اپنے منہ پر ڈال دیا کہ اسی دوران میزبان نے مہمان کے ننگے پائوں پر ایک زور دار چھڑی کا وار کیا جس کو بر داشت نہ کرتے ہوئے مہمان نے اپنے زخمی پائوں رضائی کے اندر ڈال لیے جس کو دیکھتے ہوئے میزبان نے اپنے مہمان کو یہ کہتے ہوئے دوسرے کمرے میں چلا گیا کہ اب تم جانو اور تمھاری رضائی میں نے تو اسے تم پر پورا کر دیا ہے۔

بالکل اسی طرح حکومت پاکستان نے ون فائی کے عملہ کو قانون کی با لا دستی کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ عوام کی جان و مال اور عزت کے تحفظ پر مامور کر دیا لیکن افسوس مذکورہ عملہ قانون اور انسانیت کی تذلیل کرنے کے ساتھ ساتھ موٹر سائیکلوں کے کاغذات کی چیکنگ کے دوران کرپشن کو فروغ دینے میں مصروف عمل ہو کر رہ گیا یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ میں گزشتہ دنوں اپنے دفتر میں درود پاک کا ورد کرنے کے بعد صحافتی فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران ایک بزرگ جس کے چہرے پر غم و غصہ کے تاثرات تمایاں تھے اپنے نوجوان پو تے کے ہمراہ داخل ہو کر کہنے لگا کہ اگر قانون کے محافظ ہی قانون شکن بن کر قانون اور انسانیت کی تذلیل کرے گے تو ہم جیسوں جہنوں نے ملک و قوم کی بقا کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا کو تحفظ کون فراہم کرے گا کیا ہم اسی طرح آئے روز ان قانون کے محافظوں کے ہاتھوں یونہی بے عزت ہوتے رہے گے۔

کیا یہی ہمارا مقدر ہے اور یہی ہمارا نصیب آج اس ملک میں قانون کی بالادستی کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ عوام کی جان و مال اور عزت کا تحفظ کرنے والے ون فائی جھنگ کے اہلکار شہر بھر کے چوکوں اور راستوں پر لاقانو نیت کا ننگا رقص کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آج میں اپنے پوتے کے ہمراہ دوائی لینے کیلئے موٹر سائیکل پر سوار ہو کر میڈیکل سٹور کی جانب جا رہا تھا کہ اسی دوران ون فائی کے عملہ نے باب علی گیٹ جھنگ شہر کے قریب ہمیں روک کر موٹر سائیکل کے کاغذات کی چیکنگ کرنا شروع کر دی جس پر میں نے اُن سے پو چھا کہ آپ میں سے آ فیسر کون ہے چونکہ قانون کے مطا بق مختلف گاڑیوں کے کاغذات کی چیکنگ کی اتھارٹی وارڈن اور ٹریفک پولیس کے اے ایس آئی سے لیکر ڈی ایس پی ٹریفک پولیس تک کو حاصل ہے کسی اور کو نہیں یہ سننے کے بعد مذکورہ اہلکاروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ اس بڈھے کا دماغ خراب ہو گیا ہے اسے ہم آ فیسرز نظر ہی نہیں آ رہے اسے ابھی سر عام مزہ چکھا دیتے ہیں قانونی معاملات میں دخل اندازی کرنے کا اسے تھا نہ سٹی لے جاتے ہیں جہاں پر اس کی چھترول کر کے قانون اور آ ئین کا سبق یاد کروائے گے ۔

اُن کی ان باتوں کو سن کر میں اور میرا پو تا کانپنے لگے بالآ خر ہم نے اُن سے معافی مانگ کر اپنی جان بخشی کروا کر سیدھے آپ کے پاس آ گئے کہ آپ ہمیں انصاف دلوانے میں اپنا اہم کردار ادا کرے گے اُس بزرگ کی ان باتوں کو جاننے کے بعد میں صہیح صورت حال جاننے کیلئے باب علی گیٹ جھنگ شہر پہنچا تو وہاں پر مجھے کوئی بھی ون فائی کا اہلکار نظر نہیں آ یا تو میں جھنگ سٹی تانگہ اڈہ پر تین اہلکار ون فائی کے نظر آئے جہنوں نے ایک تماشا کھڑا کر رکھا تھا کسی افراد کو بااثر افراد کے فونز پر چھوڑ رہے تھے اور کئی کے کاغذات چیک کر رہے تھے کہ اسی دوران انہوں نے مجھے بھی روک کر موٹر سائیکل کے کاغذات چیک کروانے کو کہپا جس پر میں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس گاڑیوں کے کاغذات کی چیکنگ کی اتھارٹی نہیں آپ خواہ مخواہ قانون اور انسانیت کی تذلیل کر رہے ہو آپ جیسے اہلکاروں کی وجہ سے آج پولیس اور عوام میں ایک نفرت کی دیوار کھڑی ہو رہی ہے۔

میری ان باتوں کو سننے کے بعد مذکورہ اہلکاروں میں سے ایک اہلکار جس کا نام غالبا فاروق اعظم تھا نے اپنے دیگر ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ اسے جانے دو جس پر میں وہاں سے نکل کر سیدھا ون فائی کے عملہ کے آ فس ضلر کچہری جھنگ پہنچا جہاں پر موجود مذکورہ عملہ کا انچارج سب انسپکٹر فضل عباس کو اس سارے واقعہ سے آ گاہی کے بعد اُس سے دریافت کیا کہ کیا قانونی طور پر ون فائی کے کانسٹیبلز گاڑیوں کے کاغذات کی چیکنگ کا مجاز ہیں جس کے چہرے پر قابلیت اور ایمانداری کی جھلک نمایاں طور پر نظر آ رہی تھی نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا کہ قانونی طور پر تو ون فائی کا عملہ مجاز نہیں لیکن ڈی پی او جھنگ کے زبانی حکم پر مذکورہ عملہ گاڑیوں کے کاغذات کی چیکنگ کر رہا ہے۔

مذکورہ آ فیسر کی اس بات کو سننے کے بعد میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچنے لگ گیا کہ مذکورہ آ فیسر کا یہ ایک سفید جھوٹ ہے چونکہ ڈی پی او جھنگ سردار غیاث گل خان لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی اس اندھیر نگری میں ایک قطب ستارے کی حیثیت رکھتا ہے کہ جس کی چمک سے محکمہ پولیس جھنگ جگمگا رہا ہے مذکورہ آ فیسر کا شمار اُن چند ایک ایماندار آ فیسروں میں ہوتا ہے جو اپنے فرائض و منصبی کو عبادت سمجھ کر ادا کرتے ہیں اگر حقیقت کے آ ئینے میں دیکھا جائے تو مذکورہ آ فیسر آج کے اس نفسا نفسی کے شکار معاشرے میں جس میں حرام و حلال کی کوئی تمیز نہ ہے میں غریب مظلوم افراد کیلئے سایہ شجردار کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ اپنے آپ کو ہلاکو خان اور چنگیز خان سمجھ کر لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرنے والے اہلکاروں کیلئے ایک ننگی تلوار کی حیثیت رکھتا ہے درحقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ آ فیسر کی وجہ سے عوام اور پولیس کے درمیان جو نفرت کی دیوار کھڑی ہو رہی تھی آ ہستہ آ ہستہ گر رہی ہے چونکہ مذکورہ آ فیسر کا ہر اقدام ملک وقوم کی بہتری اور بھلائی کی طرف گامزن ہے جس کی وجہ سے عوام کو عدل و انصاف کی روشنی نمایاں طور پر نظر آ رہی ہے لہذا ایسی اعلی صلاحیت رکھنے والا مذکورہ آ فیسر کھبی بھی اور کسی بھی صورت میں ایسے غیر قانونی احکامات صادر کر ہی نہیں سکتا جس میں قانون اور انسانیت کی تذلیل ہو۔

Sheikh Tauseef Hussain

Sheikh Tauseef Hussain

تحریر : شیخ توصیف حسین