لبنان: سیاسی بحران مزید سنگین، حریری حکومت سازی سے دستبردار

Saad Hariri

Saad Hariri

لبنان (اصل میڈیا ڈیسک) لبنان کے نامزد وزیراعظم سعد حریری نے صدر کے ساتھ اہم امور پر”شدید اختلافات” کی وجہ سے جمعرات کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ اس سے لبنان کا سیاسی بحران مزید سنگین ہوگیا ہے جہا ں گزشتہ نو ماہ سے کوئی باضابطہ حکومت نہیں ہے۔

لبنان کے نامزد وزیر اعظم سعد حریری نے نو ماہ قبل ملک میں حکومت سازی کا چیلنج قبول کیا تھا لیکن جمعرات کے روز انہوں نے کہا کہ صدر مائیکل عون کے ساتھ بعض اہم امور پر شدید اختلافات کی وجہ سے وہ حکومت سازی سے قاصر ہیں۔ اس نئی پیش رفت کی وجہ سے سیاسی اور اقتصادی بحران سے دوچار اس ملک کے مسائل میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سمیت دیگر بین الاقوامی عطیہ کنندگان کا اصرار ہے کہ کسی طرح کی مالی امداد دینے سے قبل لبنان میں ایک حکومت قائم ہونی چاہئے، جو سیاسی اصلاحات کرے اور امدادی پیکج کے لیے ان کے ساتھ بات چیت کرے۔ لیکن حریری کے فیصلے نے حکومت کے قیام کے امکانات مزید معدوم کردیا ہے۔

لبنان گزشہ 150برسوں کے بد ترین اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ ملک میں اس وقت غربت انتہا کو پہنچ رہی ہے۔ عوام دواؤں، ایندھن اور بجلی کی شدید قلت سے دو چار ہیں۔

ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ لبنان میں کساد بازاری جدید تاریخ میں سب سے سنگین کساد بازاری میں سے ایک ہے۔ ملکی کرنسی پچھلے دو برسو ں میں اپنی قدر 90 فیصد سے زیادہ کھوچکی ہے۔ ہر طرف غربت ہے۔ ایندھن کی قلت ہے اور سماجی بدامنی میں اضافے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

حریری نے صدر مائیکل عون کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا،”میں نے حکومت سازی سے معذرت کرلی ہے۔”

حریری نے صدر مائیکل عون کے ساتھ بیس منٹ کی ملاقات کے بعد کہا،”میں نے حکومت سازی سے معذرت کرلی ہے۔ خدا ہمارے ملک پر رحم کرے۔”

عالمی رہنماوں نے لبنان میں اس نئی پیش رفت پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے حریری کے فیصلے کو”مایوس کن” قرار دیا اور لبنانی رہنماوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے اختلافات کو درکنار کرتے ہوئے حکومت تشکیل دیں۔

عرب لیگ کے سکریٹری جنرل احمد عبدالغیث نے کہا کہ حکومت سازی سے دست بردار ہوجانے کے حریری کے فیصلے کے سنگین مضمرات ہوں گے۔

لبنان پر ایک عرصے تک حکومت کرنے والے فرانس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لبنانی رہنماوں نے جو بحران پیدا کیا تھا اس کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے حکومت سازی کی ناکامی کو ایک اور تشویش ناک واقعہ قرار دیا۔

سنی مسلمان حریری کا فیصلہ ان کے اور مسیحی صدر عون کے درمیان گزشتہ کئی ماہ سے جاری رسہ کشی کا افسوس ناک انجا م ہے۔ عالمی اور علاقائی طاقتیں دونوں رہنماوں کے مابین اختلافات کو ختم کرانے میں ناکام رہیں۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیف بوریل نے گزشتہ ماہ لبنان کے دورے کے بعد کہا تھا کہ اقتدار کے لیے رسہ کشی اور باہمی بے اعتمادی اس سیاسی بحران کا اصل سبب ہے۔

سعد حریری نے اپنے فیصلے کا اعلان کرنے کے فوراً بعد لبنان کے الجدید ٹیلی ویزن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سیاسی بحران کے لیے صدر عون کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسی کابینہ پر مصر تھے جو ان (عون) کی ٹیم کو فیصلہ سازی میں ویٹو کا اختیار دے دیتا۔ انہوں نے کہا،”اگر میں ویسی حکومت بناتا جیسا کہ مائیکل عون چاہتے ہیں…تو میں ملک نہیں چلا پاتا کیونکہ یہ وہ کابینہ نہیں ہوتی جس کے ساتھ میں کام کر پاتا۔”

حریری نے مزید کہا،”یہ واضح ہے کہ ہم اس بات پر متفق نہیں ہوسکتے جو عزت مآب صدر چاہتے ہیں۔ اسی لیے میں نے حکومت سازی سے معذرت کر لی۔ خدا ہمارے ملک کی مدد کرے۔”

دوسری طرف صدارتی محل سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حریری نے کابینہ میں کسی بھی طرح کی تبدیلی سے انکار کر دیا اور صدر عون سے کہا کہ مجوزہ کابینی اراکین کے بارے میں غور کرنے کے لیے مزید ایک دن دیا جائے۔ عون نے ان کو جواب دیا،”مزید ایک دن دینے کا کیا فائدہ، جب بات چیت کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔”

لبنان کے آئین کے مطابق صدر کا عہدہ مسیحی کے پاس جب کہ وزیر اعظم کا عہدہ سنی مسلمان کے پاس ہوتا ہے۔

صدر مائیکل عون نے کہا کہ وہ حتی الامکان جلد از جلد نئے وزیر اعظم نامزد کرنے کے لیے ممبران پارلیمان سے صلاح مشورے کریں گے۔

تاہم اس عہدے کے لیے حریری کا بظاہر کوئی متبادل نظر نہیں آتا ہے۔ تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ حریری کی تائید کے بغیر کوئی بھی سنی سیاست داں وزیر اعظم کے عہدے کا رول قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔

روزنامہ النہر کے سیاسی تجزیہ نگار نبیل بو منصف کا خیال ہے کہ نئے وزیر اعظم کا نام اور بھی مشکل کام ہے۔”ہم حکومت تشکیل نہیں دے سکیں گے یا سعد حریری کا متبادل تلاش نہیں کر پائیں گے۔ صدر مائیکل عون اس بات پر خوش ہو سکتے ہیں کہ سعد حریری سے نجات پاکر وہ کامیاب ہوگئے لیکن حقیقت میں انہوں (عون) نے پورے ملک کے لیے جنہم کے دروازے کھول دیے ہیں۔”