بھنور کا اسیر

Science

Science

تحریر : طارق حسین بٹ شان

انسانی زندگی سے متعلقہ امور کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بنیادی طور پر اناسنی جسم اور اس جسم میں مقید انسانی روح سدا سے فلاسفرز اور دانشوروں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔لیکن باعثِ حیرت ہے کہ کوئی بھی انسان جسم و روح کی انسانی دوئی کو کما حقہ بیان نہیں کر پایا حالانکہ انسانی ترقی کی ساری عظیم الشان عمارت تصورِ دو ئی سے پیدا شدہ سوچ سے عبارت ہے۔اگر سائنسی امور کے نابغہ اس دنیا کو اپنی دانش سے حیرت کدہ نہ بناتے تو انسان آج بھی جہالت کی وادی میں سر گرداں ہو تا ۔یہ تو ان کی محنتِ شاقہ کا کمال ہے کہ انسان خلائوں میں سکونت اختیار کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

سائنس دانوں کی عظمت کا ثبوت وہ جدید دنیا ہے جس میں آج ہم سانس لے رہے ہیں ۔ سائنس کی یہ دنیا اگر روحانی منازل طے کرنے والوں کے کردار و افعال کے بغیر ہوتی تو شائد یہ جہنم کا منظرپیش کرتی۔اہلِ صفا کی اعلی سیرت ، انسان دوستی،بلند کرداری اور امانت و دیانت نے سائنسی دنیا کی ہئیت میں عظمتوں کے جو پھول کھلائے ہیں اس نے اس کرہِ ارض کی دلکشی میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ در اصل دل کی دنیا اور مادہ کی دنیا کے حاملیں اپنے بنیادی فلسفہ میںایک ہیں ۔دونوں کا مقصود انسانی عظمت کو چار چاند لگانا ہے۔ایک گروہ کردار کی عظمت سے ایسا کرتا ہے جبکہ دوسرا گروہ ایجادات سے انسانی زندگیوں میںآسانیوں اور تعیشات کی رنگ آمیزی کرتا ہے۔انسانی لمیہ یہ ہے کہ مادیت کے پجاریوں نے محض انسانی جسم کو ہی موضوعِ تحقیق بنایا جبکہ روحانیت کے ماننے والوں نے روح کی کرشمہ سازیوں پر اپنی فکر کی عمارت استوار کی۔،۔

تصورِ دوئی میں مادیت پرستی کی انتہائی سوچ انسانی روح ،انسانی ذات اور انسانی انا کو کما حقہ سمجھنے میں ہمیشہ سدِ راہ رہی ہے۔انسان ایک فکرسے ہٹنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری فکر اس کا دامن تھام لیتی ہے۔افراط و تفریط کے اس فکری رحجان سے انسان تقسیم در تقسیم ہو تا چلا گیا ۔ مادہ پرستوں کے بقول حضرتِ انسان کے کان میں کسی نے تو سرگوشی کی ہو گی کہ اگر اس نے مادیت پرستی کی سوچ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو اس کے ہاتھ سے آخرت کی ساری آسائشات چھین لی جائیں گی اور اسے ایک ایسی آگ کے سپرد کر دیا جائے گا جس کی تپش دلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔مادہ پرستوں کے بقول ایسا کرنا خوف کی کیفیت پیدا کر کے انسان کو روحانی دنیا میں لے جانے کی ایک سعی تھی جسے انھوں نے جبریت سے موسوم کر کے رد کر دیا۔وہ انسان جھنوں نے سا ئنسی دنیا کی بو قلمونیوں کو اپنی فکر کا موضوع بنا رکھا تھا وہ اہلِ صفا کی ایسی تنذیر سے اپنی راہ بدلنے والے نہیں تھے لہذا ان کی جہدِ مسلسل،ریسرچ ،تحقیق اور تجربات سے مادی دنیا بدلتی چلی گئی ۔آج ہم جس حیرت انگیز دنیا میں جی رہے ہیں اس میںدنیاوی علوم کی برتری کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔

طب،میڈیکل سائنس،کمپیوٹر،فلکیات اور میڈیا کی دنیا میں جو انقلاب رو نما ہو چکا ہے اس نے انسان کو شسدر کر کے رکھ دیا ہے۔آج ستاروں پر کمندیں پھینکیں جا رہی ہیں ،چاند کو مسخر کیا جا رہا ہے اور ریڈیائی لہریں پیغام رسانی کا ایسا محیر العقول نظارہ پیش کر رہی ہیں کہ انسان خود ورطہِ حہرت میں گم ہو چکا ہے۔انسان آج ایک نئی دنیا میں زندہ ہے،پرانی قدریں،پرانے رسم و رواج، پرانے انداز،پرانے افکار،پرانے نظریات،پرانے اطوار اپنی موت آپ مر رہے ہیں ۔ رہن سہن کے نئے انداز جلوہ گر ہو رہے ہیں،معاشرتی قدروں کے ایک نئے سلسلہ کا آغاز ہو چکا ہے اور صدیوں کا تمدن اوندھے منہ گر چکا ہے ۔جس طرح سٹالن گراڈ میں سوشلزم کے بانی لینن کا مجسمہ زمین بوس ہوا تھا بالکل اسی طرح پرانی روایات ہمارے سامنے دھیرے دھرے دم توڑ رہی ہیں اور ہم بے بسی کی تصویر بنے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔کوئی نہیں جو اس دم توڑتی قدیم دنیا کو پھر سے زندگی کی تازہ رمق عطا کر سکے۔ جو نظریہ بدلتی دنیا کا ساتھ نہیں دے پاتا اس کا مٹ جانا یقینی ہوجا تا ہے لہذا قدیم دنیا کے اطوار مٹتے جا رہے ہیں۔،۔

انسانی زندگی میں یہ کیسا لمحہ آیا ہے کہ انسان اپنے ہی ہم جنسوں سے دور ہو تا جا رہا ہے۔بظاہر اس کا مطالعہ پہلے سے زیادہ وسیع ہے لیکن وہ محبت کی آفاقی سوچ جو انسانی روح میں سرشاری بھر دیا کرتی تھی اس سے کوسوں دور ہو چکاہے۔انسان سے انسان کے راہ و رسم کے جدید اطوار انسانی ذ ات پر مہلک اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔انسان پہلے سے زیادہ تنہا ہو گیا ہے۔وہ اپنی پرا ئیویسی کے بھنور کا اسیر ہو کر رہ گیا ہے ۔ وہ رشتوں کا تقدس کھوتا جا رہاہے۔اس نے جو نئی دنیا بسا رکھی ہے اس میں وہ تنہا رہنا چاہتا ہے۔اسے دوسروں کی دخل اندازی ناگوار گزرتی ہے۔وہ جن کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر پاتا تھا اب وہ ان کے بغیر جینے کا متمنی ہو چکا ہے۔مادی دنیا نے اسے آسائشات سے ضرور بہرہ ور کیا ہے لیکن اس سے احساس اور جذ بات کاوہ خزانہ چھین لیا ہے جو اس کا دامن خوشیوں سے بھر دیا کرتا تھا۔باعثِ حیرت ہے کہ اس دولتِ بے بہا کے لٹ جانے کا اسے قطعا کوئی احساس نہیں ہے۔وہ سب کچھ لٹانے کے باوجود بھی اسی روش پر چلتا جا رہا ہے جس نے اسے تنہائی کا زہر عطا کیا ہے۔،۔

(اہلِ ہشم کے دل میں فکرِ زیاں نہیں ہے۔،۔بے خوف اس قدر ہیں کہ خوفِ زیاں نہیں ہے)۔،۔

دنیا داری کے مدِ مقابل روح کی محیر العقول دنیا ہے جس میں ایک ایسے خدا کامسکن ہے جو اس پوری کائنات کے ربط کو قائم و دائم رکھے ہو ئے ہے۔اس نے اس دنیا کی بقا کیلئے جو ابدی اور غیر متبدل قوانین عطا کئے ہیں اسی سے یہ سلسلہ ِ روز و شب جاری و ساری ہے۔بگ بینگ کی تھیوری ہو یا ڈارون کا نظریہ ارتقاء ہو مالکِ ارض و سماء کے ابدی قوانین کے سامنے ہر ایک کوسر نگوں ہو نا پڑتا ہے۔کروڑہا قرنوں سے سورج ، چاند ، ستارے ،کہکشائیں اور دوسرے سیارے دنیا کی خوبصورتی کو قائم و دائم رکھے ہو ئے ہیں۔انسان کو روشنی کی تلاش تھی سو اس کیلئے سورج اور چاند ستاروں کو تخلیق کیا گیا۔اسے زندہ رہنے کیلئے اجناس ،پانی،ہوا اوراشیائے خور دو نوش کی ضروت تھی لہذا ان عوامل کو پیدا کیا گیا تا کہ انسان اپنی طبعی ضروریات کیلئے کسی دوسرے کا حاجت روا نہ رہے۔انسان کی طبعی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کے نفس ، ذات ، اور روح کی سر بلندی کیلئے بھی قوانین عطا کئے جو خدا کی آخری کتاب قرآنِ حکیم میں محفوظ ہیں۔ان قوانین کے اتباع کو اہلِ دل روحانی منازل کی ترقی کا نام دیتے ہیں ، جبکہ اہلِ نظر اسے علم و حکمت کے نام سے پکارتے ہیں۔

سائنس کی دنیا اسی علم و حکمت کی منہ بولتی تصویر ہے جبکہ اخلاق و کردار، سیرت ، اور اعلی رویوں کی آماجگاہ دل کی وہ دنیا ہے جس کا حصول روحانی منازل طے کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔انسان خدائی پیغام اور ہدائیت کو بالائے طاق رکھ دے تو مادہ پرست اسے دنیاوی جنت کی نوید سناتے ہیں ۔در اصل سائنس انسان کوحدود قید کی مسماری کی ترغیب دیتی ہے کیونکہ اس کی نظر میں خدا کے وجود کا نظریہ اس طرح کا نہیں ہے جس طرح کا تصور مذہب پرست طبقہ نے تراش رکھا ہے۔انسان اگرایک جانب زیادہ جھکنے کا مظاہرہ کریگا تو دوسری جانب اس کے ہاتھ سے پھسل جائیگی جو غیر متوازن سوچ کا آئینہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی رویوں میں تشدد کو ہوا دینے کا باعث بن جائے گی ۔ سائنسی دنیا کا شناور تنگ نظری کی بجائے وسیع القلبی کی تعلیم دیتا ہے۔وہ انسان کی ترقی کیلئے ہر قسم کی پابندیوں کو ناجائز سمجھتا ہے۔اس کا خیال ہے کہ انسان کو آزادی کی نعمت سے نوازا گیاہے لہذا اس آزادی کو چھیننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ٹکرائوکے اس ماحول میں انسان کے لئے خدا کی دکھائی گئی میانہ روی کی روش ہے ۔،۔

Tariq Hussain Butt

Tariq Hussain Butt

تحریر : طارق حسین بٹ شان
(چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال۔۔