ایل او سی پر کشیدگی، بھارت کا ثالثی سے انکار

Tension on LoC

Tension on LoC

تحریر : قادر خان یوسف زئی

بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں میں اب پاکستان کے وہ علاقے بھی شامل ہوگئے ہیں جو بھارتی شر انگیزکاروائیوں سے قدرے محفوظ سمجھے جاتے تھے ۔ وادی نیلم میں بھارتی افواج کی جانب سے بلااشتعال گولہ باری سے ایک مرتبہ پھر نہتے شہریوں اور جہلم پن بجلی گھر نوسیری ڈیم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ۔ڈیم پر تعینات چینی کمپنی کے اہلکاروں کو گزشتہ روز ہی منتقل کیا گیا تھا۔ بھارت نے گولہ باری کے ساتھ کرسٹل بم بھی داغے۔ کارگل جنگ کے بعد پہلی بار بوفورز توپوں کا بھی استعما ل کیا ۔بھارت ایل او سی کی مسلسل خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ بلا اشتعال شرانگیزیوں کا سلسلہ پاکستان کے لئے ایک ناقابل برداشت عمل ہے ۔ پاکستان بھارتی جارحیت کے مقابلے میں دفاعی جواب دیتا ہے اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کرتا ہے لیکن بھارت کا نشانہ بالعموم نہتے و بے گناہ شہری ہی ہوتے ہیں۔ بھارت دو برسوں میں ایل اوسی کی 1970مرتبہ خلاف ورزی کرچکا ہے ۔ لائن آف کنٹرول کی ایک مرتبہ پھر خلاف ورزی کی گئی جس میں سیاحت کے حوالے سے معروف وادی نیلم کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ جس پر پاکستان نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ۔ ترجمان دفتر خارجہ نے خبردار کرتے ہوئے بیان کیا کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر جنگ بندی کی بھارتی خلاف ورزیوں سے تزویراتی غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے۔ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق دفتر خارجہ میں ڈی جی ساؤتھ ایشیا و سارک ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کرکے ایل او سی پر سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی پر شدید احتجاج کیا۔ بھارتی افواج نے ایل او سی کے دننا، ڈھنڈیال، جوڑا، لیپا، شاہ کوٹ، گڑھی ڈوپٹہ، ٹیٹوال سیکٹر اور شاردہ سیکٹرز پربلااشتعال فائرنگ کی، بھارتی گولہ باری سے چار برس کا بچہ ، دو نوجوان شہید اور دس معصوم شہری زخمی ہوئے، بھارتی افواج لائن آف کنٹرول پرشہری آبادی کو بھاری اسلحہ سے نشانہ بنا رہی ہیں، جان بوجھ کر شہری آبادی کو نشانہ بنانا جہاں عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے تو دوسری جانب فسطائیت کا مظاہرہ ہے، ترجمان دفتر خارجہ کا بیان صائب ہے کہ اس قسم کی’ بھارتی خلاف ورزیوں سے تزویراتی غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے، پاکستان نے بھارت پر زور دیا ہے کہ 2003 کی جنگ بندی مفاہمت کا احترام کرے، بھارت لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر امن برقرار رکھے اور اپنی افواج کو جنگ بندی پر مکمل عملدرآمد کی ہدایت کرے،بھارت اقوام متحدہ کے امن مشن کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کردار ادا کرنے دے’۔

بھارت کی اشتعال انگیزکاروائیوں پر پاکستان بھارتی سفارت کاروں کو بلا کر اپنا پُرامن احتجاج ریکارڈ کرواتا ہے ۔ اسی ضمن میں دفتر خارجہ کا بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جس طرح بھارت مقبوضہ کشمیر کے حل سے توجہ ہٹانے کے لئے عالمی برداری کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہا ہے اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے ، اس سے پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہوئے بھارت کو دوبارہ سبق سیکھا سکتا ہے جس طرح بالا کوٹ واقعے کے بعد لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی پر دندان شکن جواب دیتے ہوئے دو بھارتی طیاروں کو مار گرایا تھا ، اس کے ساتھ ہی پاکستان کی فضائیہ نے بھارتی بیس کیمپوں کے قریب ٹارگٹ ہٹ کرکے ثابت کردیا تھا کہ وہ کہیں بھی اعلیٰ فوجی حکام کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ لیکن خطے میں امن کی خاطر صرف دفاع کررہے ہیں۔ بھارتی حکومت و میڈیا کے تمام جھوٹ اب کھل کر سامنے آچکے ہیں اور بھارتی حکام نے اعتراف بھی کرلیا ہے کہ انہوں نے اپنے اہداف حاصل نہیں کئے ۔ پاکستان نے دفاعی و اخلاقی فتح حاصل کی اور عسکری و ذرائع ابلاغ میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا ۔ عالمی برداری کو بھارت کے جھوٹ و مکر سے بروقت آگاہ کیا اور بھارت کی تمام چالوں کو نہایت کامیابی کے ساتھ ناکام بنایا ۔ لیکن اس کے باوجود بھارت اپنی بزدلانہ حرکتوں سے باز نہیں آتا اور بزدلوں کی طرح نہتے شہریوں کو نشانہ بناتا رہتا ہے ۔

پاکستانی افواج نے بھارت کی ہر شر انگیزی کا بروقت و بھرپور جواب دیا ہے ۔ زمینی یا فضائی حدود ہوں ، بھارت کو منہ توڑ جواب دیا جاتا رہا ہے لیکن بھارت اپنے بزدلانہ وتیرے سے باز آنے کے بجائے مزید اشتعال انگیزیاں کرتاہے۔ حالیہ خلاف ورزی پر ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ناکامی پر بوکھلاہٹ کا شکار ہے جس کا اظہار وہ کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں سے کررہا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بھارت کی جانب سے سیز فائر کی بڑھتی خلاف ورزیاں مقبوضہ کشمیر میں اس کی ناکامی پر بوکھلاہٹ کا اظہار ہے، بھارت عام شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنا رہا ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاک فوج بھارت کو جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا مؤثر جواب دے رہی ہے اور کنٹرول لائن کے ساتھ مقیم شہری آبادی کے تحفظ کیلئے ہر قدم اٹھائے گی۔واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ رواں ماہ بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ سے خواتین اور بچوں سمیت متعدد عام شہری شہید اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر پر امریکا کی جانب سے ثالثی کی پیش کش بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے اپیل پر کئے جانے کے بعدانڈیا میں صف ماتم مچی ہوئی ہے ۔ جس کے بعد سے مودی سرکار کو سخت دبائو اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔

بھارتی میڈیا سے برداشت نہیں ہورہا کہ آخر امریکا سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ثالثی کرنے کی درخواست کیوں کی ۔ بدقسمتی سے بھارتی میڈیا ،پاکستان فوبیا کا شکار ہے ۔ اس لئے بھارتی میڈیا امن کے بجائے جنگ کی خواہش رکھتا ہے اور سنسنی خیز جھوٹی رپورٹوں اور خبروں سے جھوٹ و منافقت میں ایک دوسرے سے نمبر لے جانے کی بازی لگاتے ہیں ۔ جب بھارتی میڈیا کے جھوٹ کا پول دنیا کے سامنے آشکارہ ہوتا ہے تو شرمندہ ہونے کے بجائے ایک نیا تماشا کھڑا کردیتے ہیں۔مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے لئے نئی قانون سازی پر اپوزیشن جماعتوں اور کشمیری تنظیموںکا سخت ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔ دوسری جانب امریکا نے مودی سرکار کا پول کر دنیا کے سامنے آشکارہ کردیا کہ بھارت کو امن سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ وہ عالمی طاقتوں کو گمراہ کرکے صرف اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے حل کے لئے عالمی طاقتوں کی ثالثی کی پیش کش کا ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے اور پاکستان کا واضح موقف رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں عوام کی خواہشات کے مطابق اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ جب بھی مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر ہوتا ہے تو بھارت کی جانب سے شر انگیز کاروائیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر افغان امن حل تنازع میں بھارتی کردار کے ختم ہونے اور امریکی اعتماد کی کمی سے بھارت بوکھلاہٹ میں بزدلانہ کاروائیوں میں مسلسل اضافہ کررہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی حقوق انسانی کی دو معروف تنظیموں نے بھارتی افواج کی جانب سے سنگین خلاف ورزیوں اور کشمیریوں پر ماروائے قانون تشدد کے حوالے سے ہوش الربا رپورٹ جاری کرکے بھارت کے نام نہاد سیکولر چہرے کو مزید بے نقاب کیا ہے ۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارتی سیکورٹی فورسز کی بہیمانہ کاروائیوں کا نشانہ بننے والے 70فیصد عام شہری ہیں جو بھارتی جارح فوج کے تشدد کی وجہ سے ہلاکتوں کا سبب بھی بنتا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق تشدد سے سے متاثر ہونے والوں میں 11 فیصد جاں بحق بھی ہوئے ہیں۔رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے حقوق انسانی سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ کشمیر میں ہورہے ٹارچر کی تحقیقات بین الاقوامی سطح پر کرائیں نیز حکومت ہند سے بھی تاکید کی گئی ہے کہ وہ ٹارچر کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کو تسلیم کرے۔560 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ’دی ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپئررڈ پرسنز’اور’جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی’نے مشترکہ طور پر تیار اور جاری کی ہے۔ یہ تفصیلی رپورٹ جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی ہے۔رپورٹ میں وادی میں مسلح مزاحمت کے آغاز یعنی 1990سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری تشدد پر خاص طور پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور سال 1947 سے بھی مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہوئے پُر تشدد واقعات کا مرحلہ وار تاریخی پس منظر پیش کیا گیا ہے۔رپورٹ میں 432 کیسوں کا مطالعہ کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر میں تشدد کے رجحانات، طریقہ کاروں، مرتکبین، متاثرین، مقامات اور اثرات کا بھی خاکہ کھینچا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جارح بھارتی مسلح افواج کو حاصل قانونی، سیاسی اور اخلاقی حمایت کے باعث مقبوضہ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے کسی بھی کیس میں کوئی مقدمہ نہیں ہوا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بدنام زمانہ گوانتا نامواورابوغریب جیلوں میں ہورہے تشددپرعالمی توجہ اور مذمت کے باوجود بھی مقبوضہ جموں وکشمیر جہاں ہزاروں کی تعداد میں عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، مقبوضہ کشمیرمیں تشدد ابھی سر بستہ راز ہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حکومت ہند تشددکو ایک منظم اور مربوط پالیسی کے بطور استعمال کرتی ہے اور ریاست کے تمام ادارے بشمول قانون سازیہ، ایگزیکٹیو،عدلیہ اور مسلح افواج اس کا ایک حصہ ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری تشدد کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا’ مقبوضہ جموں کشمیر میں بہیمانہ تشدد کا استعمال بڑے پیمانے پر جاری وساری ہے، حال ہی میں سال رواں کے ماہ مارچ کی 19 تاریخ کو رضوان پنڈت نامی ایک 29 سالہ اسکول پرنسپل کو جموں وکشمیر پولس کی اسپیشل آپریشنز گروپ کے کارگو کیمپ میں دوران حراست تشدد کرکے ابدی نیند سلا دیا گیا، تین دن بعد پولس نے رضوان کے خلاف ایک کیس درج کیا جس میں الزام لگایا گیا کہ وہ پولس حراست سے فرار ہونے کی کوشش کرتا تھا جبکہ جن پولس افسروں کی تحویل میں رضوان کی موت واقع ہوئی ان کے خلاف کوئی کیس درج نہیں کیا گیا’۔رپورٹ میں سال 1947 سے ہی مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے تشدد کو بروئے کار لانے، جو سال 1990 کے بعد نقطہ عروج پر پہنچا، کا مختصر تاریخی پس منظر بھی بیان کیا گیا ہے۔

ٹارچررپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں سال 1990 کے بعد صرف مسلح افواج کے ہاتھوں تشدد اور دوسری انسانی حقوق کی پامالیوں کا سنگین ارتکاب کیا گیا ہے ۔پورٹ میں تشدد کے جن طریقوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں محبوسین کے کپڑے پھاڑ کر انہیں ننگا کرنا ، لاٹھیوں، لوہے کے ڈنڈوں اور چمڑے کی بلٹوں سے مارنا ، جسم پر رولر کا استعمال کرنا ، محبوسین کا سر پانی میں ڈبونا، بجلی کے کرنٹ دینا، چھت سے الٹا لٹکانا ، گرم چیزوں سے جسم جلانا ، تنہا سیل میں بند رکھنا، نیند سے محروم رکھنا ، جنسی تشدد وغیرہ شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد کے متاثرین میں سے غالب اکثریت عام شہریوں کی ہے، متاثرین میں عام شہری ہیں جن میں خواتین، طلبا، نابالغ، سیاسی کارکنان، انسانی حقوق کارکنان اور صحافی شامل ہیں۔علاوہ ازیں پوری آبادی کو محاصروں اور تلاشی کارروائیوں کے ذریعے اجتماعی سزا دی جاتی جس دوران تشدد بھی کیا جاتا ہے اور جنسی تشدد کا بھی ارتکاب بھی کیا جاتا ہے۔ٹارچررپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد کے متاثرین یہاں تک کہ جنہوں نے تشدد ہوتے ہوئے دیکھا ہے، نہ صرف مختلف مہلک جسمانی امراض میں مبتلا ہوئے بلکہ مختلف نفسیاتی بیماریوں کے شکار بھی ہوئے۔ 432 میں سے 49 متاثرین تشددکے بعد زندہ نہ رہ سکے، ان میں سے 40 متاثرین کی تشدد کے دوران زخمی ہونے سے موت واقع ہوئی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشددکا تعلق دیگر انسانی حقوق خلاف ورزیوں جیسے دوران حراست ہلاکتوں اور جبری گمشد گیوں کے ساتھ بھی ہے اور تشدد کو تب ہی میڈیا میں رپورٹ کیا جاتا ہے جب اس دوران موت واقع ہوئی بصورت دیگر تشدد کو نوٹس ہی نہیں کیا جاتا ہے اور متاثرین خاموشی کے ساتھ تکلیف برداشت کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ مقبوضہ کشمیر میں آپریشن آل آوٹ کی پالسیاں جاری ہیں اور مسلح افواج کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے جیسا کہ وزیر اعظم نے حال ہی میں رواں سال ماہ فروری کی 15 تاریخ کو اعلان کیا، مسلح افواج کو تشدد کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اے پی ڈی پی اور جے کے سی سی ایس کی طرف سے تیار کردہ یہ رپورٹ تشدد کے تئیں خاموشی کو توڑنے کی ایک کوشش ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی معروف تنظیموں کی جانب سے جاری رپورٹ’ ٹارچر’ بھارت کے مکروہ کردار کو مزید نمایاں کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی بھی مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم پر رپورٹ جاری کرچکی ہے۔ اقوام متحدہ میں عالمی برداری کی خاموشی بھی ٹوٹ رہی ہے اور بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری تشدد و جبر کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو طاقت کے زور پر دبانے کی ناکام کوشش کرتا ہے ۔تاہم بھارت جتنی کوشش کرتا ہے ۔ کشمیری عوام اس سے زیادہ شدت کے ساتھ تحریک آزادی کو بڑھاتے ہیں یہاں تک کہ لاکھوں فوجیوں کی تعداد بھی بھارتی سرکار کو کم لگ رہی ہے اور مقبوضہ وادی میں مزیدبیس ہزار فوجیوںکو بھیجنے کی منظوری دی گئی ہے ۔ جس سے اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کو مزید شدت سے جاری رکھنے کی مذموم سازشیں کررہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بھارت ، پاکستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں بھارتی گولہ باریوں کا نشانہ بنتا ہے اور پاکستان کو مشتعل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ بھی شہری آبادیوں کو نشانہ بنائے لیکن پاکستان صرف اُن جگہوں فوجی چیک پوسٹوں پر ردعمل دیتاہے جہاں سے نہتے کشمیریوں پر بلاجواز اشتعال انگیز گولہ باری کی جاتی ہے۔ بھارتی چیک پوسٹوں کو بھرپور جواب دیا جاتا ہے اور اینٹ کا جواب پتھر سے بھارتی گولہ باری کو خاموش کرادیا جاتا ہے لیکن بار بار مار کھانے کے باوجود مودی سرکار اپنے فوجیوں کے تابوت اٹھانے کو ترجیح دیتی ہے کیونکہ اس سے ہندو انتہا پسند حکومت کوسیاسی فائدے حاصل ہوتے ہیں اور وہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور جھوٹے پروپیگنڈے کرکے اپنی عوام کو گمراہ کرکے پاکستان سے خوف زدہ کرتے ہیں۔

امریکا ، چین ، ایران سمیت کئی ممالک کی جانب سے مقبوضہ کشمیرکے مسئلے کی ثالثی کے لئے دیئے جانے والے بیانات کے بعد عالمی برداری کی ذے داری بنتی ہے کہ خطے کے اس نازک و حساس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرائیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر پر کئی جنگیں بھی ہوچکی ہیں اور اب دونوں ممالک کے ایٹمی پاور ہونے کے سبب خطہ کسی بھی جنگ جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔خطے میں امن کے قیام کے تناظر میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بھارت جہاں مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی میں مصروف ہے تو دوسری جانب پاکستان میں بھی بھارتی کی ریاستی دہشت گردی بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد بھارتی مفادات اپنی موت آپ مرنا شروع ہوجائیں گے تو اگر اس تناظر میں کہ بھارت ریاستی دہشت گردی پر یقین رکھتا ہے اور جنوبی بھارت سے سری لنکا میں دہشت گردی کے بڑے سانحات کی جڑیں ملتی ہوں تو خارج از امکان نہیں ہے کہ بھارت ، افغانستان میں بھی اسی قسم کی دہشت گردی کے واقعات کروا کر خطے میں امن کی راہ کو مسدود کرنا چاہتا ہو،افغانستان میں ہونے والے ایسے واقعات جس میں نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کی ذمے داری افغان طالبان اس لئے قبول نہیں کرتے کیونکہ وہ صرف جارح افواج کے خلاف مسلح مزاحمت کررہے ہیں۔ نیز افغانستان میں پاکستانی سفارت خانوں پر حملوں اور سرحد پار پاکستان میں دہشت گردی کرنے والی کالعدم تنظیموں کی پشت پناہی و فنڈنگ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہی ۔ لہذا ان حالات میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی شر انگیز کاروائیاں خطے میں کسی بڑے ردعمل کا سبب بن سکتی ہے۔ بھارت کی شر انگیزیوں کو موثر جواب دینے کا حق پاکستان محفوظ رکھتا ہے اور پاکستان اس کی مکمل اہلیت وصلاحیت رکھتا ہے کہ وہ دشمن کو اُس کے گھر میں گھس کر سبق سیکھا سکے ۔ اس لئے پاکستان نے بھارت کو انتباہ کیا ہے کہ وہ جنگی جنون سے باز آجائے ورنہ بھرپور جواب دیا جائے گا ۔ پھر پاکستان جواب کس طرح دیتا ہے یہ بھارت ہی نہیں دنیا بھی بخوبی جانتی ہے۔

 Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی