مدرسوں میں بچوں سے جنسی زیادتی کی وبا

Madrassas

Madrassas

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کے مدارس میں بچوں کے ریپ ایک خوفناک مسئلہ ہیں۔ لیکن جب بھی جنسی زیادتی کے کیس سامنے آئے، مذہبی حلقے انہیں مدارس کے خلاف سازش کہہ کر دبانے کی کوشش کرتے نظر آئے۔

صوبہ پنجاب کے شہر پاکپتن میں ایک مدرسے کے استاد نے ایک گیارہ سالہ بچے کو ریپ کرنے کی کوشش کی۔ اس واقعے کے بعد سے بچہ خوف میں مبتلا ہے۔ اس بچے کی آنٹی شازیہ (تبدیل شدہ نام) نے امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس(اے پی) کو بتایا کہ ملزم معید شاہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی لت میں مبتلا ہے اور اس سے پہلے بھی کئی لڑکے اور لڑکیاں اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس مذہبی استاد نے ایک بچی کے ساتھ جنسی زبردستی کے دوران اُس کی کمر توڑ دی تھی۔ شازیہ کے مطابق پاکستان کے مدارس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔

اے پی نیوز ایجنسی کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ مدرسوں کی تعداد بائیس ہزار سے زائد ہے۔ ان میں بیس لاکھ سے زیادہ بچے داخل ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں کئی سو مدرسے غیر رجسٹرڈ ہیں۔

اے پی کی تازہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ملک کے مختلف تھانوں میں مذہبی استادوں کے خلاف درجنوں ایف آئی آر درج ہیں لیکن ان پر کارروائی آگے نہیں بڑھتی۔ رپورٹ کے مطابق ان مدرسوں میں زیادہ تر غریب خاندانوں کے بچے قرآن کی مفت تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں اور وہاں ان کا کھانا اور رہنا مفت ہوتا ہے۔

پولیس کے مطابق مذہبی استادوں کی طرف سے بچوں کے خلاف جرائم کا رجحان اس لیے بھی قابو میں نہیں آتا کہ کئی واقعات کی رپورٹ تھانوں میں درج نہیں کرائی جاتی۔ اور اگر پولیس تک بات پہنچ بھی جائے تو ملزمان کو انصاف کے کٹہرے تک پہنچتے نہیں دیکھا گیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے مذہبی مدرسوں میں جدید تعلیمی ضروریات کو متعارف کرانے کا اعلان کیا لیکن بظاہر اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ ماضی میں مخلتف حکومتوں نے مدارس کو ریگولیٹ کرنے اور انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی۔

سماجی حلقوں کے مطابق مذہبی اساتذہ ایک طاقتور گروپ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ متاثرہ بچوں کے والدین کو جبراً شکایت واپس لینے یا خاموش رہنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں جنسی زیادتی کا شکار بچوں کو زندگی بھر نفسیاتی عارضوں اور معاشرتی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ پولیس افسر صادق بلوچ نے مذہبی استادوں کو منافقانہ رویوں کا حامل قرار دیا جو عقیدے کے پرچار کی آڑ میں یہ گھناؤنے فعل کرتے ہیں۔