منظور پشتین کے خلاف مقدمہ درج

Manzoor Pashteen

Manzoor Pashteen

وانہ (جیوڈیسک) جنوبی وزیرستان میں پولیس نے منظور پشتین اور ان کے دو سو سے زائد ساتھیوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ ادھر شمالی وزیرستان میں حکام نے غیرمقامی لوگوں کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔

منظور پشتین پچھلے چند دنوں سے جنوبی وزیرستان میں ہیں، جہاں وہ دوتانی اور وزیر قبائل کے درمیان جاری خونی تنازعات کے حل کے لیے جرگے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ اس موقع پر سینکڑوں لوگوں نے ان کا خیرمقدم کیا۔ اپنے ایک خطاب میں منظور پشتین نے حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر اس نے ارکان قومی اسمبلی علی وزیر، محسن داوڑ اور پی ٹی ایم کے درجنوں دیگر کارکنوں کو جلد رہا نہ کیا تو وہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے پر مجبور ہوں گے۔

نیوز ویب سائٹ پاکستان 24 کے مطابق، ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں چودہ اگست کی رات سکاؤٹس گراونڈ میں نعرہ بازی کرنے والے افراد غداری کے مرتکب ہوئے۔ پولیس کے مطابق منظور پشتین کے قافلے میں شامل افراد نے پی ٹی ایم زندہ باد اور فوجی قیادت کے خلاف نعرے لگائے۔

جنوبی وزیرستان وانہ میں گزشتہ کئی دنوں سے دو قبائل کےدرمیان خونریزی جھڑپ جاری ہے ایک دوسرے پر بڑےا سلحے کیساتھ حملے کر رہے تھے لیکن انتظامیہ خاموش تماشائی بیھٹے تھےمنظور پشتین صلحہ کرنے کیلئے گئےامن کیلئےعوامی اجتماع کی تو انتظامیہ نےFIRدرج کردی
امن کی بات کرنا جرم ہے۔

اسی دوران شمالی وزیرستان میں حکام نے غیرمقامی افراد کے داخلے پر دفعہ 144 کے تحت پابندی لگا دی ہے۔ ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان کے حکم کے تحت یہ پابندی امن و امان کی صورتحال قابو میں رکھنے کے پیش نظر لگائی ہے۔

پی ٹی ایم کے کارکنوں کا الزام ہے کہ انتظامیہ نے یہ پابندی منظور پشتین کو اُن کے شمالی وزیرستان کے متوقع دورے سے روکنے کے لیے لگائی ہے۔

پی ٹی ایم کی رہنما ثنا اعجاز کے مطابق حکومت پاکستان کشمیر میں بھارت کو جن مظالم کا الزام دے رہی ہے ویسی ہی زیادتیاں وہ ملک کے اندر اپنے لوگوں کے ساتھ کررہی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہمیں کشمیریوں سے پوری ہمدردی ہے لیکن یہ حکومت اپنے لوگوں کے ساتھ انسانی حقوق کی جو پامالیاں کر رہی ہے اُس سے تو وہ خود اپنا اخلاقی اور سیاسی مقدمہ کمزور کر رہی ہے۔ کشمریوں کے لیے ایک معیار اور پشتونوں کے لیے دوسرا معیار، کیا یہ ریاست کی دوغلی پالیسی نہیں؟‘‘

پاکستان میں فوجی حکام کا الزام ہے کہ پی ٹی ایم کے بعض عناصر بیرونی ہاتھوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔ حکومت نے اس قسم کے الزامات کے ثبوت نہیں دیے لیکن ایک عرصے سے پی ٹی ایم کے اجتماعات پر غیر اعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے۔ پاکستان کے نجی ٹی وی چینلوں کو پی ٹی ایم سے متعلق خبریں نشر کرنے کی اجازت نہیں۔

ادھر بنوں میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے قومی اسمبلی کے ارکان علی وزیر اور محسن داوڑ کے خلاف مقدمات میں سے ایک میں ان کی ضمانتیں قبول کر لیں جب کہ دوسرے میں ضمانتیں رد کرتے ہوئے انہیں واپس جیل بھیج دیا۔

عدالت نے مئی میں خڑ کمر میں سکیورٹی چیک پوسٹ پر پرتشدد واقعے میں ضمانت مسترد کی جبکہ اسی علاقے میں سات جون کو فوج کی ایک گاڑی پر ہونے والے حملے سے متعلق درج ایف آئی آر میں ضمانت منظور کرلی۔ پی ٹی ایم کے وکلا نے ضمانت کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

واضع رہے کہ حکام نے علی وزیر اور محسن داوڑ کو کوئی ڈھائی ماہ سے گرفتار کر رکھا ہے۔ انہیں پہلے پشاور جیل اور بعد میں ہری پور جیل منتقل کر دیا گیا۔ وکلا کے مطابق، اب تک کی متعدد پیشیوں میں کبھی کیس کا ریکارڈ غائب تھا تو کبھی جج صاحب کے نہ آنے کی وجہ سے ضمانتوں میں اتنا وقت ضائع کیا گیا۔ اسیری کے دوران دونوں اراکین اسمبلی کو پارلیمان کے اجلاسوں میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔