ربِ ذولجلال جب کسی پر اپنا کرم ِخاص فرماتے ہیں تو وہ گمنامی کے اندھیروں سے نکل کر شہرت و عظمت کی ایسی بلندیوں اور رفعتوں سے ہمکنار ہو جاتا ہے قیامت تک اس کو ایسی لازوال شہرت ملتی ہے کہ جسے زمانے کی گرد یا دن رات کی کروٹیں بھی دھندلا نہیں پاتیں بلکہ گزرنے والا ہر لمحہ اس کی شہرت میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے ۔لازوال عظمت و شہرت کی ایسی ہی رات براق کے حصے میں بھی آئی جب وہ قیامت تک کے لیے امر و زندہ جاوید ہو گیا۔رحمتِ دو جہاں محبوب خدا ۖ کو اِس سنگ و خشت کی دنیا میں آئے ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا تھا کہ آسمانوں اور جنت کو دلہن کی طرح سجایا جا رہا تھا قدسی ملائکہ حیران تھے کہ کس کی آمد آمد ہے کہ رنگ و نور کا سیلاب آیا ہوا ہے ہر چیز کو پورے اہتمام سے سجایا جا رہا ہے ۔ہجرت مدینہ سے ایک سال پہلے کی بات ہے جب محبوب خدا سرور کائنات ۖ ایک رات خواب استراحت فرما رہے تھے کہ رب کعبہ نے جبرائیل امین کو مخاطب کیا اور حکم دیا کہ میں اپنے محبوب سے ملنے کا مشتاق ہوں جا جنت میں براق کو لو اور میرے محبوب ۖکو عزت و احترام سے میرے پاس لے آ جبرائیل امین نے حکم کی تعمیل کی اور چشم زدن میں وہاں پہنچ گئے بہشت کے مرغزاروں میں چالیس ہزار براق چر رہے تھے ہر براق کی پیشانی پر محمد ۖ کا نام مبارک چمک رہا تھا ۔جبرائیل نے جب چاروں طرف نظر دوڑائی تو ایک ایسا براق نظر آیا جو سب سے الگ تھلگ غمگین افسردہ ایک کونے میں سر جھکائے آنسوں کے سمندر میں ڈوبا ہوا نظر آیا ۔اسے کھانے پینے سے کوئی رغبت نظر نہیں آرہی تھی ۔
سید الملائکہ اس کے پاس گئے او ر دریافت فرمایا یہ کیا حال کیا ہوا ہے تو اداس براق نے عرض کی اے جبرائیل امین میں نے چالیس ہزار سال پہلے خدائے بزرگ و برتر کے محبوب محمد ۖ کا نام سنا تھا ۔ اس دن سے آج تک میں آپ ۖ کے عشق میں مبتلا ہوں ۔ شوق دیدار اتنا بڑھ گیا ہے کہ کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہا ۔ جبرائیل امین نے غمگین براق کی حالت زار دیکھی تو سرور دو جہاں ۖکی سواری کے لیے اسے منتخب کیا کیونکہ اس میں عشق محمدی ۖ بدر جداتم موجود تھا ۔ حالانکہ وہاں پر موجود باقی براق بھی شافع محشر ۖ کے عشق میں مبتلا تھے جبرائیل نے براق سے کہا چلو تو براق بولا کدھر تو جبرائیل امین بولے جن کی محبت و عشق میں تم ہزاروں سال سے گرفتار ہو۔ براق کو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا کیونکہ اس کے تصور میں بھی یہ نہ تھا کہ اچانک ایک دن اپنے محبوب ۖ کا قرب اور دیدار نصیب ہو گا ۔لیکن فخرِ دو عالم محبوب خدا ۖ کی محبت رنگ لے آئی اور دونوں جہانوں کی نعمتوں سے زیادہ اور بڑی نعمت محبوب ِ خدا ۖ کا دیدار اور قرب کا موقع ملا براق کی ہزاروں سالوں کی خواہش پوری ہونے جارہی تھی وہ خوشی سے دیوانہ وار جھوم رہا تھا ۔
ہفت املاک سے ماورا سدر المنتہی تک محبوب خدا ۖ کو براق رفتاری سے لے جانے کے لیے جس سواری کی ضرورت تھی وہ براق ہی ہو سکتا تھا براق گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک ایسا چمک دار جانور جو اپنا کھر اپنی نگاہ کے آخری مقام پر رکھتا ہے جبرائیل امین بمع براق جب بارگاہ ِ دو جہاں ۖ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو شہنشاہِ دو عالم ۖ آرام فرما رہے تھے ۔فرستادہ ربانی نے محبوب خدا ۖ کے پاں مبارک کو اپنے کافوری لبوں سے بوسا دیا تو ان کے لمس سے آپ ۖ نے سرمگیں آنکھوں کو وا کیا تو سامنے سیدالملائکہ ادبا کھڑے تھے ۔ آقا دو جہاں ۖ کے بولنے سے پہلے ہی جبرائیل امین نے عرض کی اے مالک ِ دو جہاں ۖ ربِ ودود کو آپ ۖ سے ملاقات کا اشتیاق ہے ۔
جب سرتاج الا نبیا ۖ حضرت جبرائیل کے ہمراہ باہر تشریف تو سامنے دیوانہ مست براق کھڑا تھا ۔ آپ شہنشاہِ دو عالم ۖ کے عشق اور شوق دیدار میں وہ چالیس ہزار سال سے مثل ماہی بے آب تڑپ رہا تھا ۔ محبوب خدا ۖ کو دیکھ کر فرط جذبات عشق و محبت براق کی آنکھوں سے خوشی کے آنسوں ساون بھادوں کی طرح برسنے لگے ۔ محبوب خدا ۖ جب براق پر سوا ر ہو نے لگے تو براق نے ہلکی سی شوخی دکھائی تو جبرائیل امین نے سرزنش کی اور کہا ۔ اے براق تو نہیں جانتا کہ تجھ پر کون سوار ہو رہا ہے اٹھارا ہزار عالم کے سردار تو براق نے عرض کیا اے وحی الہی کے امین اور جناب قدس کے ایلچی مجھے معاف فر مائیں میں حاجت مند ہوں اور محبوب خدا ۖ سے ملتمس ہوں ۔ شہنشاہِ دو جہاں نے جب براق کی التجا سنی تو لب لعلین مبارک کو جنبش دی اور فرمایا بتا تاکہ پورا کروں ۔ اے محبوب خدا سرور کائنات سرتاج الا نبیا ۖ آج رات میری زندگی کی عظیم ترین رات ہے ۔ میرے جسم کا رواں رواں حالت وجد اور سرشاری میں ہے۔
یہ میری زندگی کا عظیم ترین ساعتیں ہیں جو میں آپ ۖ کے ساتھ گزاروں گا۔کل روزِ محشر جب فلک پیما ، عالم آرا برق آسا انگشت براق آپ ۖ کی خدمت میں مامور ہوں گے تو ایسا نہ ہو کہ آپ ۖ مجھ سے نظر فرما کر ان کی طرف متوجہ ہوں اور مجھے بیکار چھوڑ دیں ۔ اے شہنشاہِ دو عالم ہادی کون و مکان ، وجہ تخلیق کائنات ، فخر دوعالم ، ساقی کوثر ۖ مجھ میں اِس بات کی طاقت نہیں میری التجا قبول فرمائیے اور میری رکاب میں قدم مبارک رکھیں ۔ براق کا عشق اور فریاد سن کر مجسمِ رحمت ۖگویا ہوئے مطمئن رہو روزِ قیامت تم پر ہی سواری کروں گا ۔براق کی صدیوں کی خواہش پوری ہو ئی دل و دماغ میں عشق و محبت کی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں ۔ فورا ادب سے جھک گیا پھر شافع دو جہاں ۖ براق پر سوار ہو ئے ۔ اور جبرائیل کی معیت میں بیت المقدس تشریف لائے اور جہاں پرانبیا اپنی سواریاں باندھتے تھے اس جگہ براق کو باندھا اور مسجد اقصی میں داخل ہو ئے یہاں پر دو رکعت نماز پڑھی اورانبیا کی امامت فر مائی یہاں پر حضرت جبرائیل آپ ۖ کے بارگاہ مقدس میں تین برتن لائے ایک شراب کا دوسرا دودھ کا تیسرا شہد کا محبوب خدا ۖ راحتِ انس و جاں ۖ نے دودھ پسند فرمایا سیدالملائکہ نے عرض کی یا رسول اللہ ۖ آپ ۖ نے فطرت پائی آپ ۖ کو ہدایت نصیب ہوئی اور آپ ۖ کی امت کو بھی کیونکہ اگر آپ ۖ نے شراب پسند فرمائی ہوتی تو آپ ۖ کی امت گمراہ ہو جاتی اِس کے بعد مالک دو جہاں ۖ کو بیت المقدس سے آسمان تک لے جایا گیا حضرت جبرائیل نے دروازہ کھلوایا آپ ۖ کے لیے دروازہ کھولا گیا ۔
سنن ابو داود میں حدیث پاک ہے ۔سرور دو جہاں ، سرور کائنات ، رحمتِ مجسم ، رحمت للعالمین ، محبوب خدا ، آمنہ کے لال ، شہنشاہ ِ کائنات ، یتیموں کے والی بے سہاروں کا آسرا شافع محشر ، ساقی کوثر ۖ فرماتے ہیں۔میرے لیے آسمان کا ایک دروازہ کھولا گیا تو میں نے ایک عظیم الشان نور دیکھا اور حجاب کے پار موتی اور یاقوت کی مسند دکھائی دی ۔معراج کی رات انبیا نے حضور ۖ کی اقتدار میں نماز ادا کی تو پھر آسمانی سفر کا آغاز ہوا پہلے آسمان پر پہنچ کر دستک دی گئی تو آواز آئی کون ہے ؟ سید الملائکہ نے جواب دیا میں جبرائیل ہوں ۔ آواز آئی آپ کے ساتھ کون ہیں تو جبرائیل امین نے جواب دیا یہ محمد ۖ ہیں آج کی رات انہیں آسمانوں پر پذیرائی بخشی جائے گی ۔ تو آسمان کا دروازہ کھول دیا گیا ۔ دروازہ کھول نے والے نے محبوب خدا ۖ کی خدمت میں عقیدت بھرا سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی ۔پہلے آسمان پر سرتاج الانبیا کی ملاقات اپنے جدِ امجد حضرت آدم سے ہوئی حضرت آدم کو بتایا گیا کہ یہ آپ کے جلیل القدر فرزند ہیں ختم المرسلین ہیں یہی حضرت محمد ۖ اور تما م انبیا کے سردار ہیں ۔
مالک ِ دو جہاں نے دادا جان کہہ کر سلا م کیا حضرت آدم نے سلام کا جواب دیا اور اپنے عظیم ترین فرزند کو اپنی دعاں سے نوازا ۔ پھر آپ ۖ کو دوسرے آسمان پر لے جایا گیا حضرت جبرائیل نے دروازہ کھلوایا یہاں نبی کریم ۖ نے دو خالہ زاد بھائیوں حضرت یحی بن ذکریا اور حضرت عیسی بن مریم کو دیکھا اور انہیں سلام کیا دونوں نے مرحبا کہا اور آپ ۖکی نبوت کا قرار کیا ۔ یہاں کے ملکوتی مشاہدات کے بعد آپ ۖ کو تیسرے آسمان کی طرف اٹھا یا گیا ۔ یہاں پر حضور ۖ کی ملاقات حضرت یوسف سے کرائی گئی جن کو آدھا حسن دیا گیا تھا آپ نے بھی سلا م کیا انہوں نے جواب دیا مرحبا کہا آپ ۖ کی نبوت کا اقرار کیا ۔ پھر نبی کریم ۖ کو چوتھے آسمان پر لے جایا گیا وہاں پر حضرت ادریس کو دیکھا اور انہیں سلام کیا انہوں نے بھی جواب دیا مرحبا کہا اور آپ ۖ کی نبوت کا اقرار کیا ۔
پھر آپ ۖ کو پانچویں آسمان پر لے جایا گیا وہاں حضرت ہارون کو دیکھا اور انہیں سلام کیا انہوں نے بھی سلام کا جواب دیا مرحبا کہا اور آپ ۖ کی نبوت کا اقرار کیا یہاں سے آپ ۖ کو چھٹے آسمان پر لے جایا گیا وہاں حضرت موسی سے ملاقات ہوئی حضرت موسی کی چشمان مبارک اشکبار ہو گئیں سرتاج الانبیا کی شان و شوکت دیکھ کر رشک سے آنسو چھلک پڑے اور بے اختیار زبان مبارک سے نکلا یہ خدائے بزرگ و برتر کے وہ برگذیدہ رسول ہیں جن کی امت کو میری امت پر شرف عطا کیا گیا جن کی امت کو میری امت کے مقابلے میں کثرت کے ساتھ جنت میں داخل کیا جائے گا ۔اِس کے بعد آپ ۖ کو ساتویں آسمان پر لے جایا گیا وہاں آپ ۖ کی ملاقات حضرت ابراہیم سے ہوئی آپ ۖ نے سلام انہیں سلام کیا انہوں نے محبت سے جواب دیا مرحبا کہا آپ ۖ کی نبوت کا اقرا ر کیا حضرت ابراہیم اپنی پشت مبارک بیت المعمور سے لگائے ہوئے تھے جس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہو تے ہیں اور دو بارہ ان کے پلٹنے کی باری نہیں آتی ساتوں آسمانوں کے نورانی جلووں کے بعد تاجدار کائنات کو سدر المنتہی کے مقام تک لے جایا گیا ۔
یہ وہ حساس اور اعلی مقام کہ جہاں آکر ملائکہ اور انبیا و رسل کی بھی پرواز ختم ہو جاتی ہے یہاں مقرب فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں یہاں پر روح الامین جبرائیل کے بھی پر جلنے لگے اور وہ بے اختیار بول اٹھے کہ اگر میں یہاں سے ایک انگلی کی پور برابر بھی آگے بڑھا تو تجلیات الہی مجھے جلا کر خاکستر کر دیں گی ۔ سید الملائکہ کی پرواز اور طاقت نے جہاں دم توڑا وہیں سے نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان خیر البشر ۖ عظمتوں اور رفعتوں کے لازوال سفر کا آغاز کیا ۔سدر المنتہی کا مقام عالم مکان کی آخری حد اور لا مکان کا پہلا زینہ ہے ۔تفسیر نیشا پوری میں ایک حدیث مبارکہ ہے ۔ فرشتے اللہ رب العزت کی بارگا اقدس میں دعا مانگتے تھے کہ اے کائنات کے مالک جس محبوب ۖ کی خاطر تو نے کائنات تخلیق فرمائی جس پر تو اپنی زبان قدرت سے ہمہ وقت درود پڑھتا ہے اور ہم بھی تیرے حکم کی تعمیل میں اس ہستی پر درود و سلام کا نذرانہ بھیجتے ہیں آج وہی مہمان ذی وقار تشریف لا رہے ہیں اے باری تعالی ہمیں اپنے رسول محتشم کا بے نقاب جلوہ عطا فرما ۔ اللہ پاک نے مقرب ملائکہ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور فرمایا کہ تم ساری کائنات آسمانی سے سمٹ کر اِس درخت سدر المنتہی پر بیٹھ جاو ۔ فرشتے ہجوم در ہجوم امڈ پڑے فرشتوں کی اتنی زیادہ کثرت ہوئی کہ وہ درخت ان کے نور کے سائے میں آگیا ۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے ۔ ترجمہ جب سائے میں لے کر چھپا لیا سدرہ کو جس نے چھپا لیا (ملائکہ کی کثرت نے ) النجم ۔اِس عظیم مقام پر قدسیان فلک نے محبوب ِ خد ا ۖ کے دیدار کا لازوال شرف حاصل کیا اور اپنی ہزاروں سالوں کی خواہش اور پیاس کو بجھایا رخِ مصطفے ۖ ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دکان آئینہ ساز میں ۔محبوب خدا ۖ مہمان ِ عرش جب آگے بڑھنے لگے تو سیدالملائکہ رک گئے اور عرض کی اگر میں ایک چیونٹی برابر بھی آگے بڑھا تو ( تجلیات الہی کے پر توسے ) جل جاوں گا ۔یہاں سے آگے جبرائیل امین اور براق آپ کے ساتھ نہ تھے ۔ یہاں سے سرتاج الانبیا ۖ اپنے رب کے اذن سے تنہا ہی روانہ ہوئے ۔
خالق ِ ارض و سمانے محبوب ۖ مہمان کے عرش کی سواری کے لیے ایک سبز ملکوتی اور رنگ نور سے سجا نورانی تخت بھیج دیا۔ اِس عظیم خوبصورت تخت کا نام زخرف تھا ۔ اِسطرح رحمتِ دو جہاں ۖ وجہ تخلیق کائنات محبوب خدا ۖ کو عرش معلی تک پہنچا دیا گیا ۔ جب سدر المنتہی کی منزل گزر گئی اور فرشتوں کے ہجوم بھی پیچھے رہ گئے تو آگے نور کا سمند ر تھا چاروں طرف نور ہی نور اور کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا پھر محبوب خدا ۖ کو اِس نور کے سمندر میں داخل کر دیا گیا ۔ دیکھنے والی چشم آپ ۖ کو دیکھنے سے قاصر تھی نور کیسا تھا آپ کہاں تھے اِس نور کے سمندر اور حصار ِ نور میں داخل ہونے کے بعد مہمان عرش نے عرش معلی کی سیر کی ۔ عرش نے آپ ۖ کے تلوووں کے بوسے لیے اِس کے بعد آپ ۖ کو بہت عزت و احترام وقار کے ساتھ آگے لے جایا گیا یہاں سے سفر کا ایک نیا مرحلہ تھا جہاں نور خدا تھا اور محبوب خدا ۖ یہ معراج کا سفر کا نقطہ عروج تھا ایک عالم ِ نور تھا انوار و تجلیات الہی پر فشاں تھے ۔ خدائے بزرگ و برتر کی ذاتی اور صفاتی تجلیات کی برسات تھی عالم لا مکان کے جلوے ہر سو جلوہ ریز تھے ۔
سردار الانبیا آمنہ کے لال ۖ مہمان عرش کو تن تنہا اِن رنگ و نور کے جلووں میں داخل کر دیا گیا تھا اور اللہ تعالی کے اسما کے پردے ایک ایک کر کے گزرتے رہے ۔ حضور ۖعالم بیداری میں لہذا بوجہ بشریت معمولی سی وحشت ہوئی تو رب ذولجلال کی آواز آئی ۔ پیارے محمد ۖ رک جا بے شک تمھارا رب (استقبال کے لیے ) قرب آرہا ہے ۔سفر معراج کے اِس نازک مرحلہ پر محبوب خدا ۖ مقام قاب قوسین پر پہنچ گئے ارشاد باری تعالی ہے ۔ترجمہ النجم ۔ پھر (اس محبوب حقیقی سے ) آپ ۖ قریب ہوئے اور آگے بڑھے پھر (یہاں تک بڑھے کہ) صرف دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔معراج النبی ۖ کو ہمارے ہاں مذہبی نوعیت کا واقعہ تہوار سمجھا جاتا ہے اور اِسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے اسی وجہ سے مقدس مذہبی تہوار کی مناسبت سے ایک ادھ جلسہ منعقد کر کے شب دیدار کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں ۔نوافل پڑھ لیے شیرینی بانٹ دی ریڈیو TVچینل پر مقررتقریریں کر کے واہ واہ کا ماحول بنایا اور فارغ ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ اصل میں یہ واقعہ عروج آدم خاکی کا شاندار مظہر ہے ۔ تسخیرِ کائنات کے سفر کا اہم سنگِ میل ہے۔ سفر معراج کے تین مراحل ہیں ۔ پہلا مرحلہ مسجر الحرام سے مسجد اقصی تک یہ زمینی سفر ۔ دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصی سے سدر المنتہی تک ہے یہ کرہ ارض سے کہکشاوں کے اس پار واقع نورانی دنیا کا سفر ہے اور سب سے اہم تیسرا مرحلہ سدر المنتہی سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک ہے ۔یہ لازوال سفر محبت اور عظمت کا سفر ہے یہ سب دیدار محب اور محبوب کی انوکھی خاص ملاقات ہے لہذا اِس ملاقات کو زیادہ تر راز میں رکھا گیا سور النجم میں صرف اتنا فرمایا وہاں اللہ تعالی نے اپنے محبوب سے راز و محبت کی باتیں کرلیں ۔
بے شک اِس مقام پر اللہ تعالی نے اپنے محبوب کا خوبصورت مکھڑا دیکھا اور اپنے محبوب کی میٹھی میٹھی زبان سے باتیں سنیں ۔ یہی وہ مقام تھا جہاں فقط رسول کریم ۖ ہی تھے جو اپنے رب تعالی کے حسن بے نقاب کے جلوے میں مشغول تھے اور اللہ تعالی کے ارشادات اور پیار بھری باتیں ۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سفر محبت و عظمت اپنے مقصود کو پانے والا تھا ۔ اِس رات سر تاج الانبیا ۖ کے ہر روحانی لطیفے کو قرب ِ الہی نصیب ہو ااور وہ دیدار خدا کی لازوال لذتِ دوام سے ہمکنار ہوا یہاں پر جب تمام مراحل طے پاگئے تو ساقی کو ثر اِس حال میں زمین پر لوٹے کہ ہر ہر لطیفے میں مالک ارض و سما کے قرب اور دیدار کی لذتیں سما چکی تھیں ۔ معراج النبی ۖ کا وقوع پذیر ہونا انسانی تاریخ کا ایک ایسا زرین اور درخشندہ باب ہے جس کا ایک ایک حرف عظمت و رفعت کی ہزار ہا داستانو ں کا امین اور عروج آدم خاکی کا ان گنت پہلوں کا مظہر ہے نقوش ِ کفِ پائے محمد ۖ سے لوح افلاک پر شوکت انسانی کی جو دستاویز مرتب ہوئی وہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہی نہیں بلکہ ایسا مینارہ نور بھی ہے کہ جو تسخیرِ کائنات کے ہر مرحلے پر آنے والی نسل انسانی کے راستوں کو منور کرتا رہے گا اور آسمانوں کی حدود سے نکل کر اولادِ آدم کو مشاہدہ فطرت کی ترغیب دیتا رہے گا سفر معراج اصل میں سفر ارتقا ہے یہ آقائے دو جہاں کا وہ عظیم معجزہ ہے جس پر عقل انسانی آج بھی انگشت بد نداں ہے انتہائی کم وقت میں مسجدِ حرام سے بیت المقدس تک لمبا سفر طے ہو جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے قسم ہے روشن ستارے (وجود محمدی ۖ)کی جب وہ (شبِ معراج عرشِ بریں پر عروج فرما کر زمین کی طرف ) اترا تمھارے آقا نہ (کبھی) گمراہ ہوئے اور نہ بے راہ چلے اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے ۔ ان کافرمانا فقط وحی الہی ہی ہوتا ہے جو (انکی طرف ) کی جاتی ہے ۔ انہیں سکھایا سخت قوتوں والے بہت زبردست (اللہ) نے ۔ پھر اس (اللہ) نے استوی فرمایا ۔ اِس حال میں کہ وہ (محمد ۖ) سب سے اونچے کنارے پر تھے پھر قریب ہوا (اللہ محمد ۖسے ) پھر زیادہ قریب ہوا ۔ تو (محمد ۖ اپنے رب سے ) دو کمانوں کی مقدار (نزدیک) ہوئے بلکہ اس سے (بھی) زیادہ قریب ۔ تو وحی فرمائی اپنے عبد مقدس کو جو وحی فرمائی۔
سور انجم ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے ۔ وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے )پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرب ) بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے با برکت بنا دیا تاکہ ہم اس (بندہ کامل ) کو اپنی نشانیاں دکھائیں بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے ۔ سور بنی اسرائیل ۔ حدیث مبارکہ میں یوں بیان ہے ۔ یہاں تک کہ آپ سِدر المنتہی پر آگئے رب العزت اپنی شان کے لائق بہت ہی قریب ہوا یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اِس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ صحیح بخاری ۔ رب کعبہ نے اپنی شان کے مطابق اپنے محبوب ۖ کو خوش آمدید کہا اور اتنا قریب ہوا کہ اللہ تعالی اور اس کے محبوب کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا گویا کہ رحمتِ مجسم ۖ پر پروردگار کے جلوں کی برسات خوب ہوئی بارگاہ خدا میں نبیوں کے سردار تاجدار کائنات ۖسرتاپا صفات ربانی میں اسطرح رنگے گئے کہ آپ ۖ کی ذات اللہ تعالی کی پیکراتم بن گئی ۔ سرور کائنات ۖ مقام بشریت کو بیت المقدس میں چھوڑ گئے اور مقامِ نورانیت کو عالم ملکیت میں چھوڑ کر آگے گزر گئے ۔
حقیقت محمدی ۖ ان دونوں مقامات کی انتہا سے بھی بالا تر ہے آپ ۖکا اصلی گھر تو لامکاں تھا جہاں پر آپ ۖ کو مدعو کیا گیا ۔ سفر معراج کی شان دیکھئے رب ذولجلال جب چاہے دنیا کے اندازے اور قاعدے ضابطے قوانین وقت کے پیمانے پلٹ کر رکھ دے ۔ معراج کے حوالے سے عبدالقدوس گنگوہی نے کیاخوب کہا ہے کہ ۔ حضور ۖ فلک افلاک پر پہنچے مگر واپس آگئے اگر میں وہاں پہنچ جاتا تو کبھی واپس نہ آتا ۔ یہ بات ایک صوفی تو کر سکتا ہے کہ صوفی کا نقطہ کمال یہی ہے اگر وہ اس تک پہنچ گیا تو گویا اِس کی تمام عبادات ریاضتوں کا ثمر حاصل ہو گیا لیکن پیغمبر کا منصب مخلوق خدا کی ہدایت اور راہنمائی ہے کہ وہ عرش پر جا کر بھی اپنے منصب کی تکمیل کے لیے واپس فرش پر لوٹ آتا ہے ۔شبِ معراج کا یہ معجزہ ہے کہ انسان بس ایک مشتِ خاک جسے ہوا کا ایک جھونکا اڑا اور بکھیر سکتا ہے ۔ فرشتوں نے بھی حضرت انسان کی عظمت کو محض تسبیح و تقدس کے حوالے سے دیکھا اور بول اٹھا کہ ہم اِس سے زیادہ خدا کی پاکی اور حمد بیان کر نے والے ہیں لیکن معراج کی رات نبی کریم ۖ ان انتہائی رفعتوں اور منزلوں سے ہو آئے جس کے پہلے زینے پر جبرائیل امین کے پر جلنے لگے وہ منظر کتنا خوب ہو گا جب محبوب خدا ۖ خراماں خراماں ان رفعتوں کی طرف بڑھے جہاں فرشتوں کے پر جلتے تھے اس وقت ملائکہ کتنی حسرت سے دیکھتے ہوں گے اور رشک کرتے ہوں گے۔