چوہوں سے انسانی زندگی کو خطرات اور تحقیق

Mice

Mice

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ

لوگ چوہوں کو صرف ناپسند ہی نہیں کرتے بلکہ ان سے کراہت بھی محسوس کرتے ہیں۔ تاہم کچھ لوگوں کے لیے یہ مقدس بھی ہیں۔ چار اپریل کو چوہوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، تو اس جانور سے متعلق کچھ غلط معلومات کی تصحیح کر لی جائے۔پاکستان بھر میں خصوصاً سرکاری ونجی عمارتوں میں لاکھوں چوہے موجودہیں،2018ء میں پارلیمنٹ لاجز میں 50 ہزار کے قریب چوہوں کی موجودگی کا انکشاف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سروے میں کیا گیا تھا۔اجلاس میں چوہوں کا تذکرہ گونجتا رہا، اس وقت کے چیئرمین پی اے آر سی نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ پارلیمنٹ کے کمروں، کیفے ٹیریاز میں 50 ہزار کے قریب چوہے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ آج کل کی جدید اور شہری زندگی میں چوہے زیادہ خطرناک نہیں ہیں، جیسا کہ وہ قرون وسطیٰ میں ہوا کرتے تھے۔ سن 2014 میں ایک اندازہ لگایا گیا تھا کہ نیو یارک سٹی میں آٹھ ملین چوہے ہیں تاہم حقیقت میں یہ تعداد تقریبادو ملین بنتی ہے۔

نیو یارک جیسے شہر میں بہرحال چوہوں کی اتنی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔کہاجاتاہے کہ ہندو بھگوان گنیش کو اکثر چوہے پر سوار دکھایا جاتا ہے۔ ان دونوں کے تعلق کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ابتدا میں گنیش بھگوان دنیاوی رکاوٹوں کو دور کرنے والا تھا جبکہ چوہا اپنے تیز دانتوں سے ان رکاوٹوں کو کترنے میں مدد فراہم کرتا تھا۔ اس لیے ہندو اساطیر میں اس چھوٹی سی مخلوق سے ان گنت داستانیں منسوب ہیں۔اسی طرح چین میں بھی چوہا انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ چینی لوگ اسے تصوراتی تحریک، تجسس اور وسائل کی بھرمار سے تعبیر کرتے ہیں۔ چوہا چینی کلینڈر کا پہلا اور نمایاں جانور بھی ہے۔ چین میں سن 2020 میں اس تناظر میں بڑی تقریبات کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔ تاہم دنیا کے دیگر خطوں میں چوہے سے کوئی خاص ہمدردی نہیں ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ یورپ میں سن 1346 ء تا سن 1353 ء کوڑھ کی بیماری پھیلی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس دوران پچھتر تا دو سو ملین افراد اس مرض کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے۔ اس بیماری کے پھیلنے کی وجہ کالے رنگ کے خاص چوہوں کو قرار دیا گیا تھا۔ تاہم اگر ماضی کا مطالعہ کرتے ہوئے اس وباء کے پھیلنے کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو چوہوں پر عائد یہ الزام غلط بھی ثابت ہو سکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ کوڑھ کا مرض وسطی ایشیا سے کریمیا پہنچا، جہاں سے یہ یورپ آیا۔ وسطی ایشیا میں اس بیماری کو تاریخی طور پر ’گابریئل‘ نامی ایک چوہے سے منسوب کیا جاتا رہا۔ موسم کی شدت کے نتیجے میں یہ چوہے تو مر گئے لیکن حشرات نے ان مرے ہوئے چوہوں سے جراثیم دیگر علاقوں میں منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

سن 2015ء میں شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اونٹوں اور بار برداری کے لیے استعمال ہونے والے دیگر جانوروں سے چمٹے یہ حشرات انہی جانوروں کے ساتھ ساتھ یورپ بھی پہنچ گئے۔ پھر ان حشرات نے ان جراثیم کو نہ صرف چوہوں میں منتقل کیا بلکہ براہ راست انسانوں کو بھی متاثر کیا۔ یوں یہ وباء اس وقت یورپ کی ساٹھ فیصد آبادی کو نگل گئی تھی۔طبی سائنس میں بھی چوہے کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اس پر تجربات کیے جاتے ہیں۔ چوہے اور انسان کے اعصاب، نفیسات اور ہارمونز میں مماثلتوں کی وجہ سے ان تجربات کو اہم بھی قرار دیا جاتا ہے۔ انہی تجربات کے باعث ڈاکٹروں کو انسانوں کی جسم میں اعضا کی پیوند کاری کے حوالے سے کئی اہم معلومات بھی حاصل ہوئی ہیں۔ یہ البتہ ایک یقینی بات ہے کہ لیبارٹری میں تجربے کے بعد چوہے کو ہلاک بھی کر دیا جاتا ہے۔

دوسری طرف جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن اس طرح کے تجربات کو غیر ضروری اور ’وحشیانہ عمل‘ بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانوں اور چوہوں کی بیماریوں کو ایک طریقے سے نہیں پرکھا جا سکتا۔ جرمنی میں جانوروں کے ڈاکٹروں کے ایک گروپ DAAE کی سربراہ کورینا گیرِکّےCorina Gericke کہتی ہیں، ”جانوروں پر تجربات کے نتائج گمراہ کن اور غیر متعلق ہیں۔“

افریقی چوہوں کو سدھایا بھی جاتا ہے، جو اپنی سونگھنے کی صلاحیت سے بارودی سرنگوں کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ بیلجیم کی غیر سرکاری تنظیم Apopo چوہوں کو سدھانے کا کام کامیابی سے کر رہی ہے۔ بلی کے سائز کے ان بڑے بڑے چوہوں کا وزن کم ہوتا ہے اور ان کے قدموں کی وجہ سے دھماکا خیز مواد پھٹتا نہیں ہے۔ تنزانیہ، موزمبیق، انگولا اور کمبوڈیا میں سدھائے ہوئے یہ چوہے بارودی سرنگوں کا کامیابی سے سراغ لگا رہے ہیں۔

یہ بڑے چوہے نہ صرف ٹی این ٹی مواد کا پتا چلا لیتے ہیں بلکہ ان کی سونگھنے کی حس اس قدر تیز ہوتی ہے کہ یہ تپ دق کی علامات کی نشاندہی میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ موزمبیق میں ان چوہوں نے ڈاکٹروں کی مدد کرتے ہوئے اس مرض میں مبتلا بہت سے لوگوں کی نشاندہی کی، جس کے نتیجے میں ان مریضوں کا فوری طور پر علاج شروع کرنے میں بھی مدد ملی۔ چوہوں پر سائنسدانوں نے تحقیق کے دوران یہ مشاہدہ کیا کہ انکی آنتوں میں موجود بیکٹریا تناؤکی کیفیت میں ایسے بیکٹریا میں تبدیل ہوگیا کہ جو چکنائی پر مبنی غذاؤں کے شوقین چوہوں کی آنتوں میں پائے جاتے ہیں۔ یعنی ان چوہوں کو ذہنی تناؤ کی کیفیت میں ”مرغن“ غذائیں پسند آنے لگتی ہیں۔ امریکہ کی بریگ ہیم ہنگ یونیورسٹی کی پروفیسر لورار برج واٹر کا کہنا ہے کہ ہم بعض اوقا ت تناؤ کے بارے میں سوچتے ہیں کہ یہ خالصتاً نفسیاتی عمل ہے لیکن یہ ہمارے جسم میں واضح طبعی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔

یہ تحقیق نیچر سائنٹفک رپورٹس نامی جرنل میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں ماہرین کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جب مادہ چوہوں کو تناؤکے ماحول میں رکھا گیا تو انکی آنتوں میں پائے جانے والے مائیکرو بائیوٹا میں تبدیلی واقع ہوگئی اور ایسے بیکٹریا میں تبدیل ہوگئے کہ جو ان مادہ چوہوں کی آنتوں میں پائے جاتے ہیں جو چکنائی پر مبنی غذائیں کھانے کی عادی ہوتی ہیں۔ محققین نے تحقیق کے دوران یہ بات بھی نوٹ کی کہ نر چوہوں کو اگر چکنائی پر مبنی غذا دی جائے تو ان میں مادہ چوہوں کے مقابلے میں جھنجھلاہٹ زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح نر چوہے تناؤ سے متاثر ہوکر سست روی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت چوہوں کی افزائش اور ان کو تلف کرنے کے لئے ماہرین پر مشتمل کمیٹی قائم کرے تاکہ عوام پائی جانے والی غلط فہمی کو ختم کی جا سکیں۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ