مودی حکومت ٹوئٹر سے ناراض، ‘پاکستانی حمایت یافتہ‘ اکاؤنٹس کی بندش کا حکم

Twitter

Twitter

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) مودی حکومت اب ٹوئٹر سے ناراض ہے اور اس نے مبینہ طور پر ‘پاکستانی حمایت یافتہ‘ سینکڑوں اکاؤنٹس کی بندش کا حکم دے دیا ہے۔

بھارت نے ٹوئٹر کو تقریباً بارہ سو اکاؤنٹس بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ مودی حکومت کو شبہ ہے کہ یہ اکاؤنٹس خالصتان کے حامیوں کے یا ‘پاکستانی حمایت یافتہ‘ ہیں، جو چند ماہ سے بھارتی کسانوں کی احتجاجی تحریک کو ہوا دے رہے ہیں۔

مودی حکومت نے پہلے بھی ٹوئٹر کو 257 اکاؤنٹس بند کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس مائیکرو بلاگنگ کمپنی نے اس نوٹس پر اب تک عمل درآمد نہیں کیا، جس کی وجہ سے نئی دہلی حکومت ٹوئٹر سے پہلے سے ہی ناراض ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت کو وزارت داخلہ، انٹیلی جنس اور سکیورٹی ایجنسیوں کی طر ف سے موصول ہونے والے مشوروں کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ملکی وزارت نے ٹوئٹر کو یہ نیا نوٹس جمعرات کے روز جاری کیا۔

اس نوٹس میں ٹوئٹر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان 1178 اکاؤنٹس کو بلاک کر دے، جو مبینہ طور پر خالصتان کے حامیوں کے ہیں یا جو بیرونی ملکوں سے ‘پاکستان کی حمایت‘ سے چلائے جا رہے ہیں اور جن کا ‘کسانوں کی احتجاجی تحریک کو ہوا دینے کے لیے غلط استعمال‘ کیا جا رہا ہے۔

ایک حکومتی ذریعے کا کہنا تھا کہ بیرونی ملکو ں سے چلائے جانے والے ان ٹوئٹر اکاؤنٹس کے ذریعے کسانو ں کی تحریک کے حوالے سے گمراہ کن معلومات پھیلائی جا رہی ہیں اور اشتعال انگیز مواد بھی استعمال کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں امن عامہ کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

سوشل ميڈيا پر مشہور گلوکارہ ريحانہ اور سويڈش ماحولیاتی کارکن گريٹا تھونبرگ سميت کئی اہم عالمی شخصيات نے بھارت ميں سراپا احتجاج کسانوں کی حمايت کی۔ بھارتی حکومت نے اسے اپنے اندرونی معاملات ميں ’دخل اندازی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر کو اس سے پہلے بھی بھارت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی قوانین کے تحت 257 اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کی ہدایت دی گئی تھی لیکن اس نے اب تک اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔ ان ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری حکم نا ماننے پر ٹوئٹر کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔

مودی حکومت نے ٹوئٹر کو گزشتہ ماہ کی 31 تاریخ کو 257 ایسے اکاؤنٹس بند کرنے کا حکم دیا تھا، جو حکومت کے مطابق اشتعال انگیزی کے مرتکب ہوئے تھے اور بھارتی کسانوں کی احتجاجی تحریک کے حوالے سے گمراہ کن معلومات پھیلا رہے تھے۔ ٹوئٹر نے اپنی انڈیا ٹیم کے مشورے کے بعد ابتدا میں اس حکم پر عمل درآمد کیا تھا اور ان اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا تھا، جن میں نیوز میگزین کارواں، بالی وُڈ کے ایک مقبول اداکار اور متعدد سماجی کارکنوں کے اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ ٹوئٹر کے اس اقدام پر سوشل میڈیا پر ہنگامہ مچ گیا تھا اور اس پر سنسرشپ کے الزامات عائد کیے جانے لگے تھے۔ اس پر ٹوئٹر انتظامیہ نے چند ہی گھنٹے بعد اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے یہ تمام اکاؤنٹس بحال کر دیے تھے۔

تب ٹوئٹر نے ان اکاؤنٹس کو بحال کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے ان اکاؤنٹس کی بحالی کا فیصلہ اس لیے کیا ان کے ذریعے شیئر کی جانے والی معلومات ‘اظہار رائے کی آزادی کے مطابق اور خبریں بننے کے لائق” تھیں۔

مودی حکومت کی طرف سے ٹوئٹر کو مزید اکاؤنٹس بند کرنے کے حوالے سے تازہ ترین نوٹس میں سابقہ حکم پر بھی عمل درآمد کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر بیٹھے کسان مظاہرین کا کہنا ہے کہ متنازعہ قوانین واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا اور وہ چھ ماہ کی تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔

مودی حکومت ٹوئٹر کے بانی جیک ڈورسی کے رویے سے بھی ناراض ہے۔ ڈورسی نے بھارت میں کسانوں کی تحریک کی حمایت میں کی گئی کئی ٹویٹس کو ‘لائک‘ کیا تھا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جیک ڈورسی کے رویے نے ٹوئٹر کی غیر جانبداری پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں، ”اگر ٹوئٹر کا بانی ہی کھلے عام ایک فریق بن جائے، تو اس پلیٹ فارم کی غیر جانبداری پر سوال پیدا ہونا ایک فطری سی بات ہے۔”

ڈورسی نے کسانوں کی تحریک کے سلسلے میں معروف امریکی گلوکارہ ریحانہ کی ٹویٹ کو ‘لائک‘ کیا تھا۔ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی کارین آتیہ کی اس پوسٹ کو بھی لائک کیا تھا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھاکہ ریحانہ نے ”بھارتی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔‘‘

ٹوئٹر نے ابھی تک مودی حکومت کے تازہ ترین نوٹس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم نئی دہلی میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ٹوئٹر کے سی ای او جیک ڈورسی کے رویے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھارت میں کسانوں کے احتجاجی مظاہروں کے حوالے سے ملکی حکومت کے موقف کے بر عکس موقف بھی اختیار کر سکتے ہیں۔