ماہ صفر اور مسلمان

Safar Month

Safar Month

تحریر : حافظ امیر حمزہ سانگلوی

صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے اور اسلام کی آمد سے قبل بھی اس مہینے کا نام صفر ہی تھا۔دین اسلام نے اس کے نام کو برقرارہی رکھا۔ماہ صفر اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے۔ قرآن مجیداور احادیث مبارکہ میں اس مہینے کی نہ کوئی فضیلت بیان ہوئی ہے اور نہ ہی اسے منحوس اور بے برکت کہا گیا ہے۔ہاں اگر کسی کوکسی سال، مہینے، دن یا رات کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ جائے ، کوئی غم لاحق ہو جائے تو اس کا ہر گزیہ مطلب نہیں کہ وہ منحوس یا بے برکت ہے۔ بلکہ قبل از اسلام اہل جاہلیت ماہِ صفر کو منحوس خیال کرتے تھے۔ ایسے نظریات کے حامل افراد کے لیے پیارے پیغمبر حضرت محمد ۖ کا یہ فرمان عالی شان کافی ہے کہ” اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی توان تین چیزوں میں ہوتی عورت، گھر اور گھوڑا”(بخاری)۔اس حدیث مبارکہ سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ کوئی چیز بھی منحوس نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے جس چیز کو چاہے برکت والا بنا دے اور جس کے لیے چاہے برکت والا نہ بنائے۔اسی طرح دورجاہلیت میں ماہ محرم میں جنگ و قتال کو حرام خیال کیا جاتا اور یہ حرمت قتال ماہ صفر تک برقرار رہتی لیکن جب صفر کا مہینہ شروع ہو جاتا اسے منحوس سمجھا جاتا۔ ماہ صفر میں جب جنگ و جدال دوبارہ شروع ہو جاتے تو اہل عرب جنگ کے لیے چلے جاتے اور گھرو ں کو خالی چھوڑ جاتے اس لیے اس مہینے کا نام صفر (جس کا معنی خالی ہے) رکھا گیا تھا۔

آج کے باشعور معاشرے میں بھی بہت سے لوگ ماہ صفر کے بارے جہالت اور دین سے دوری کے سبب ایسی توہمات کا شکار ہیں جن کا دین اسلام سے دور کا بھی تعلق واسطہ نہیں۔ جیسا کہ اس مہینے میں توہم پرست لوگ شادی کرنے کو نحوست کا باعث قرار دیتے ہیں۔ اس میں کسی کام مثلاً کاروبار وغیرہ کی ابتدا نہیں کرتے، لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے،اور اس میں سفر کرنے کو برا سمجھتے ہیں۔ اس قسم کے اور بھی کئی کام ہیں جنہیں کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا اعتقاد ہوتا ہے کہ ہر وہ کام جو اس مہینے میں شروع کیا جاتا ہے وہ منحوس یعنی خیر و برکت سے خالی ہوتا ہے۔

اس بات میں کسی قسم کا بھی شک و شبہ نہیں ہے کہ ماہ و سال، شب و روز اور وقت کے ایک ایک لمحے کا خالق اللہ ربّ العزت ہے، اور اللہ تعالیٰ نے کسی دن، مہینے یا گھڑی کو منحوس قرار نہیں دیا۔ در حقیقت ایسے توہمانہ خیالات غیر مسلم اقوام اور قبل از اسلام مشرکین کے ذریعے معاشرے میں داخل ہوئے اور آج وہی فاسد خیالات مسلم اقوام میں داخل ہو گئے ہیں۔ جبکہ دین اسلام کے روشن اوراق ایسے باطل خیالات اور توہمات سے پاک ہیں۔ اس لیے کسی وقت کو منحوس سمجھنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں بلکہ کسی دن یا کسی مہینہ کو منحوس کہنا درحقیقت اللہ ربّ العزت کے بنائے ہوئے زمانہ میں، جو شب وروز پر مشتمل ہے، نقص اور عیب لگانے کے مترادف ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”آدم کا بیٹا مجھے تکلیف دیتا ہے، وہ وقت (دن، مہینے، سال) کو برا کہتا ہے حالانکہ وقت (زمانہ) میں ہوں، بادشاہت میرے ہاتھ میں ہے، میں ہی دن اور رات کو بدلتا ہوں”۔ اس سے معلوم ہوا کہ دن رات اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں، کسی کو عیب دار ٹھہرانا خالق و مالک کی کاریگری میں عیب نکالنا ہے۔

ایک حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جان لو! اگر لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں کہ وہ تمہیں کچھ فائدہ پہنچائیں تو وہ کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے، مگر وہی جو اللہ نے تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے اور اگر لوگ اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچائیں تو وہ تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے”۔سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے” (ابن ماجہ)۔ اس سے معلوم ہوا کہ بدشگونی یعنی کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شریعت میں سختی سے ممنوع ہے۔

بر صغیر میں ماہ صفر کے خصوصاًپہلے 13دنوں کو بہت منحوس خیال کرتے ہیں۔وہ اس لیے کہ ان دنوں میں جادو گر، جنات اور بد روحیں کھلے عام آفات مچاتی ہیں اور کام بگاڑتی ہیں۔ایک کہاوت یہ بھی بنائی گئی ہے کہ ان دنوں میں کوئی بیماری ہو جائے تو وہ مریض مشکل سے بچتا ہے یا اس ماہ میں لگنے والی بیماری مہلک یا شدید ثابت ہوتی ہے۔جبکہ یہ سب باتیں عوام میں پھیلادی گئی ہیں، جو کہ محض تو ہمات اور گھڑی ہوئی باتیںہیں، لغویات اوربدعات ہیںاور دین حنیف میں اضافہ ہیں، شریعت محمدی ۖ میں ان کا کوئی جواز نہیں۔ بلکہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ضلالت و جہالت سے مبرا اور دلائل و براہین سے آراستہ ہے، اسلام کے تمام احکام پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں اور اس دین مبین میں خرافات وبدعات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دین اسلام نے انسان کی ہر سطح پر کامل رہنمائی کی ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان،اعتقاد اور توکل کا تقاضا یہ ہے کہ سب کچھ اسی سے ہونے کا یقین انسان کے قلب و ذہن میں راسخ ہو۔کسی شے کے بارے میں بدفالی،نحوست اورتوہم پرستی کا نظریہ درحقیقت ایک غیراسلامی سوچ اور اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی عمل ہے۔

Hafiz Ameer Hamza

Hafiz Ameer Hamza

تحریر : حافظ امیر حمزہ سانگلوی