موریا کیمپ: یورپ کی مہاجرین کے بحران میں ناکامی کی علامت

Moria Camp Refugees

Moria Camp Refugees

یونان (اصل میڈیا ڈیسک) یونان میں مہاجرین کے سب سے بڑے کیمپ موریا میں 12000 ہزار سے زیادہ پناہ گزین مقیم تھے۔ موریا میں آگ لگنے سے تمام خیمے تباہ ہوگئے اور پناہ کے ہزاروں متلاشی ایک مرتبہ پھر بے گھر ہوگئے۔ یورپی پناہ کا قانون ناکام ہو گیا؟

مہاجرین کا بحران ایک انسانی المیہ ہے، جس نے یورپی یونین کی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا۔ سن 2015 میں تارکین وطن اور پناہ گزینوں کا ایک ہجوم یورپی یونین کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس دوران جرمن چانسلر میرکل نے کہا تھا، ہم یہ کر سکتے ہیں۔ پناہ گزینوں کے بحران میں جرمنی کے لیے میرکل کا یہ کہا کافی حد تک کامیاب ثابت ہوا لیکن شاید یورپی یونین کے لیے نہیں اور یونان میں مہاجرین کے سب سے بڑے کیمپ موریا میں آتشزدگی نے اسے ثابت کردیا ہے۔ موریا کیمپ میں آگ لگنے کے چوبیس گھنٹے بعد ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کتنے پناہ کے متلاشی افراد ایک مرتبہ پھر بے گھر ہوچکے ہیں۔

یورپی یونین کے رکن ممالک کم از کم ایک بات پر اتفاق کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ یورپی یونین کی سرحدوں کو مضبوط بنایا جائے۔ اس حکمت عملی کا ایک حصہ ترکی کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ ہے جس کا مقصد تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو بغیر کنڑول کے یورپ آنے سے روکنا ہے۔ اگرچہ اس بارے میں ایک تنازعہ پیدا ہوگیا کہ اس معاہدے کے بدلے ترکی کو کیا ملے گا؟ لیکن مجموعی طور پر معاہدے پر عملدرآمد کیا گیا۔

ترکی کو مہاجرین کے لیے یورپی یونین کی امداد فراہم کی گئی، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوئی بھی سرحد پار نہ کر سکے۔

یورپی یونین نے تجارتی معاہدوں کے ساتھ ساتھ ترقیاتی تعاون کے منصوبوں میں بھی، اب یہ شرط شامل کر دی ہے کہ افریقہ کے ساتھی ممالک ہجرت پر سختی سے قابو پانے کی کوشش کریں۔ اسی تناظر میں، لیبیا کے کوسٹ گارڈز کو بھی یورپی یونین کی جانب سے مالی معاونت فراہم کی گئی۔ اس کے برعکس سمندر میں ریسکیو سروسز عدم توجہ کا شکار رہیں۔

یورپ کی سرحدیں تو مضبوط ہوگئیں لیکن شاید انسانی حقوق، تشدد اور جنگ سے متاثرہ افراد کا تحفظ، اور بین الاقوامی معاہدےنظر انداز ہوگئے۔ یورپی کمیشن کا منصوبہ تھا کہ یونانی جزیرے لیسبوس پر قائم رجسٹریشن سینٹر میں پناہ گزینوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے ان کی درخواستوں پر جلد از جلد کارروائی کی جائے۔

یورپ کا سب سے بڑا مہاجرین کیمپ موریا۔آتشزدگی اور کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل بھی یورپی یونین کی ناکامی کی ایک علامت ہے۔ تین ہزار افراد کے لیے تعمیر کیے گئے اس کیمپ میں بارہ ہزار افراد رہ رہے تھے۔ پناہ کے متلاشی افراد کی ایک درخواست پر کارروائی میں دنوں کے بجائے سال لگ جاتے تھے۔ اس کی وجہ، بہت زیادہ بیوروکریسی، لاعلمی اور سیاسی مرضی کا فقدان رہی۔

گزشتہ پانچ برسوں سے مہاجرین کی یورپ آمد پر نظر رکھنے والے صحافی جیورج میتھیوس کے مطابق یہ ایک کھلا راز ہے کہ یورپی پناہ کا قانون ناکام ہوگیا ہے۔ میتھیوس کے بقول ڈبلن کے نام نہاد قوانین کے مطابق پناہ کے متلاشی افراد اپنی درخواستیں اسی ملک میں جمع کرواسکتے ہیں، جہاں سے وہ یورپی سرزمین میں داخل ہوئے ہوں۔

یورپ کی بیرونی سرحدوں پر واقع ممالک جیسے کہ اٹلی اور یونان کےساتھ یہ صرف ناانصافی ہی نہیں بلکہ یہ ان کے لیے یہ ممکن بھی نہیں ہے۔

یورپی یونین کے کمیشن نے ملکی آبادی اور معاشی طاقت کے حساب سے پناہ گزینوں کو تقسیم کرکے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ بھی کارآمد ثابت نہ ہو سکا۔ ہنگری، پولینڈ، چیک رپبلک اور سلوواکیہ کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ مشرقی یورپ کسی بھی طرح کی امیگریشن کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔

جرمنی، سویڈن، یا پھر لکسمبرگ جیسے چند ملکوں نے رضاکارانہ طور پر مہاجرین کو پناہ کی اجازت دی۔

مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے پانچ سال بعد بھی یورپی یونین میں مہاجرین کے معاملے پر گہری تقسیم ہے۔ اس کی ایک مثال کورونا وبا ہے۔ بعض ممالک کورونا وبا کی آڑ میں اب تارکین وطن کے خلاف اقدامات سخت کر رہے ہیں۔

ایک طویل تاخیر کے بعد، یورپی یونین کا کمیشن آخر کار موسم خزاں میں سیاسی پناہ اور ہجرت کا اپنا نیا منصوبہ پیش کرنا چاہتا ہے۔ کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن اس بات پر قائل ہیں: یورپی یونین میں سیاسی پناہ کے قوانین پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔