مامتا

Mother

Mother

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

امریکہ پلٹ پڑھا لکھا جوان ایک ہفتے سے مسلسل میرے پاس ایک ہی مطالبہ لے کر آرہا تھا شدید مصروفیت کی وجہ سے مختلف بہانوں سے اُس کو ٹال رہا تھا میں جب انکار کرتا تو انتہائی مہذب شائستگی سے واپس چلا جاتا لیکن اگلے دن پھر عزم و ہمت کا پہاڑ بن کر پھر میرے سامنے آکھڑا ہو تا ادھر ادھر کی باتیں کر نے کے بعد پھر اصرار کرتا سر آپ میرے ساتھ میرے گھر چلیں گے میں نے آپ کو اپنے گھر لے کر جانا ہے سر میری بوڑھی ماں بہت شدید بیمار ہے بڑھاپے اور مختلف بیماریوں نے اُن کو بستر پر لٹا دیا ہے وہ اپنی مرضی سے حرکت اور کھا پی بھی نہیں سکتیں اگر وہ یہاں آسکتیں تومیں ضرور ان کو لے کر آپ کے پاس آجاتا سر آپ میری اور میری بوڑھی والدہ کی مجبوری کو سمجھیں اور میرے ساتھ میرے گھر چلیں میری بہن اُس کے ساتھ ہیں وہ بھی خوش ہو جائیں گی میں چھٹی پر واپس آیا ہوں میں ڈاکٹروں ہسپتالوں کے چکر لگا کر ہمت ہار کر اب آپ کے پاس آرہا ہوں مجھے امید ہے میری والدہ ٹھیک ہو جائیں گی۔

پلیز آپ میرے ساتھ چلیں وہ ہر بار ایسی ہی باتیں کر تا لیکن آج التجا بھرے لہجے میں بولا سر آج آپ تھوڑا وقت نکا ل کر خدا را میری بات سن لیں پھر آپ ہی فیصلہ کرنا کہ آپ کو میرے ساتھ جانا ہے کہ نہیں میںآج کے بعد پھر کبھی آپ کو مجبور نہیں کروں گا لیکن میری بات تو سن لیں لہذا میں جوان کے ساتھ بیٹھ گیا اور اُس کو کھل کر بولنے کا موقع دیا تو بولتا چلا گیا اور مجھے حیرتوں اور ندامت کے سمندر میں غرق کر تا گیا اُس نے اپنی بات پوری مکمل نہیں کی تھی کہ میں ندامت بھرے لہجے میں بولا آپ تھوڑا انتظار کر لو میں آج ہی آپ کے ساتھ آپ کی جنت والدہ سے ملنے جائوں گا میرے لیے بہت بڑی سعادت ہو گی آپ کی والدہ سے ملنا اور میں بہت شرمندہ ہوں اتنے دن آپ کو انتظار اور انکار کی صلیب پر لٹکائے رکھا میرے ہاں کرنے پر جوان تشکر آمیز لہجے میں شکریہ ادا کرتے ہوئے بیٹھ گیا کہ آپ فری ہو جائیں پھر میں آپ کو اپنی عظیم والدہ صاحبہ کے پاس لے کر جائوں گا۔

میرے جسم کا رواں رواں عرق ندامت سے لرزاں تھا کہ میں کٹھور بن کر اتنے دن کیوں انکار کر تا رہا کاش میں پہلے دن ہی اِس کی ولیہ ماں سے ملنے چلا جاتا پھر میں فارغ ہو کر اُس جوان کی گاڑی میں بیٹھ کر اُس کی والدہ سے ملنے اُس کے گھر کی طرف جانے لگے تو جوان نے میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے پھر اپنی عظیم ماں کی عزم و ہمت کی داستان شروع کر دی کہ سر میں آج امریکہ میں بڑی فرم میں اعلیٰ درجے کی جاب کر رہا ہوں میں نے فنانس میں ایم بی اے کیا ہوا ہے میری بہن ڈاکٹر ہے اور تیسرا بھائی دوبئی میں بینکر ہے ہم تینوں اعلی تعلیم یافتہ ہیں سر میں آپ کو پہلے بھی بتا چکاہوں کہ میری ماں پیدائشی گونگی بہری ہیں وہ نہ بول سکتی ہیں نہ ہی کچھ سن سکتی ہیں حیران کن دوسری بات یہ ہے کہ میرے والد صاحب جو اب اِس دنیا میں نہیں رہے وہ بھی پیدائشی گونگے بہرے تھے دونوں جب جوان ہوئے تو دونوں کو اپنے پیدائشی نقص کی وجہ سے رشتوں کے معاملے میںدھتکار دیا گیا کیونکہ گونگے بہرے ہونے کی وجہ سے دونوں سے کوئی بھی رشتہ کرنے کو تیار نہیں تھا پھر اچانک میرے والد کا رشتہ میری والدہ کے لیے آیا والدصاحب گونگے بہرے تھے لیکن کمال کے درزی تھے کپڑے سینے کے ہنر میں یکتا تھے جس کی وجہ سے اچھا خاصہ کمالیتے تھے کیونکہ میری والدہ بھی گونگی تھیں اِس لیے فوری طورپر یہ رشتہ قبول کر لیا گیا اِس طرح میرے والدین کی شادی ہو گئی والد صاحب کے پاس سلائی کا ہنر تھا اِس لیے معاشی تنگی سے آزاد خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے لگے خدا نے اِس رشتے میں برکت ڈالی تو ہم دو بھائی اور ایک بہن کے آنے سے والدین کا آنگن خوشیوں سے مہکنے لگا۔

ہم جب بڑھے ہونے لگے تو والدہ کو بہت زیادہ شوق تھا کہ ہم پڑھ لکھ کر کامیاب انسا ن بنیں لہذا والدہ نے ہماری پڑھائی اور تربیت پر خاص توجہ دینی شروع کر دی محلے میںپرائیویٹ سکول میںہمیں داخل کرادیا سکول کی پرنسپل کو جب پتہ چلا میرے والد صاحب درزی ہیں تو انہوں نے بھی والد صاحب سے اپنے اور اپنے خاوند کے کپڑے سلوانے شروع کر دئیے والدہ کو اپنے بچوں کی تعلیم کا اتنا شوق اور جنون تھا کہ پرنسپل صاحبہ سے کپڑوں کی سلائی کے پیسے نہیں لیتی تھیں اور فیس باقاعدگی سے ادا کرتی تھیں اشاروں میں پرنسپل صاحبہ سے ایک ہی بات کرتیں کہ میرے بچوں کو اعلی تعلیم کے لیے تیار کریں اِس طرح والدہ کے بعد وہ پرنسپل صاحب ہماری نگران بن گئیں اب یہ دونوں خواتین ہماری تعلیم پر بھر پور توجہ دینے لگیں پرنسپل صاحبہ نے میری والدہ کو بہن بنا لیا تھا والدہ صاحبہ دن رات ایک ایک کر کے ہمیں پڑھنے پر مجبور کرتیں پرنسپل صاحبہ ہماری ماں کو اشاروں میں بتائیں کے بچے ٹھیک جارہے ہیں یا کمزور ہیں پرنسپل صاحبہ کی یہ راہنمائی ہمارے بہت کام آئی ہماری والدہ نے اپنی زندگی کا مشن بنا رکھا تھا ساری رات ہمارے سروں پر بیٹھ کر ہمیں پڑھائی پر مجبور کرتیں اِس طرح ہم تعلیم کی اعلی منازل طے کرتے چلے گئے بہن ڈاکٹر بن کر گئی۔

ہم دونوں ملک سے باہر چلے گئے چند سال پہلے والد صاحب انتقال کر گئے پچھلے ماہ والدہ کو فالج کا اٹیک ہوا تو وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئیں اب وہ بہت آئستگی سے صحت یاب ہو رہی ہیں والدہ بچپن سے داتا صاحب شوق سے جایا کرتی تھیں والد صاحب بھی اولیا ء کے ماننے والے تھے اب وہ بار بار ہمیں کہتیں ہیں کسی سے مجھے دم کرائو تو میں کئی جگہ دم کرا چکا ہوں پھر کسی نے آپ کا بتایا آپ سے ملا تو مجھے اچھا لگا اِس لیے آپ کو والدہ کے پاس لایا ہوں پھر ہم اُس کے گھر پہنچ گئے جہاں پر گونگی بہری والدہ نے معاشرے کو تین پڑھے لکھے انسان دئیے جبکہ یہاں پر پڑھی لکھی مائیں معاشرے کو ڈاکو لٹیرے دے رہی ہیں کمرے میں آرام دہ صوفے پر بوڑھی عورت بیٹھی تھی جس کے بالوں پر چاندی سرک آئی تھی مجھے دیکھ کر اُس کی آنکھوں کی قندیلیں اور روشن ہو گئیں ایک طرف بیٹی دوسری طرف بیٹا بیٹھ کر ماں کو میرے بارے میں اشاروں کی زبان میں بتانے لگے تینوں اشاروں سے باتیں کر رہے تھے جب مجھ گناہ گار کے بارے میں بیٹے نے بتایا کہ میں نیک بزرگ ہوں تو ٹھیک ماتھا کو پیشانی پر لے جا کر سلام کرنے کی کوشش کی تو میرا من اجالے سے بھر گیا میں عظیم ترین ماں کو دیکھ رہا تھا جس نے معذوری کے باوجود علم کے نور کو اولاد میں منتقل کیا میں اُن کے پاس بیٹھا تو اشاروں میں کہہ رہی تھیں مجھے دم کرو تو میں گنا ہ گار خدا کے کرشموں پر حیران تھا کہ میں وہ ایک صلاحیت لیتا ہے تو دوسری بہت ساری خوبیاں اجاگر کر دیتا ہے میں نے ماں کے فالج زدہ ہاتھ کا بوسہ لیا اور واپس آگیا واپسی پر میرا انگ انگ مامتا کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org