سانحہ مری اور خلائی مخلوق

Murree Tragedy

Murree Tragedy

تحریر: روہیل اکبر

پنجاب کے خوبصورت علاقے مری کی برف باری دیکھنے والوں کو موت نے دھر لیا تو دوسری طرف سندھ کے علاقے تھرپارکر میں بچوں کی اموات کا سلسلہ تھم نہ سکا ایک دن میں 3 بچے غذائی قلت اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر علاج نہ ہونے پر دم توڑ گئے اس پر شائد بات نہ کرتا مگر رواں ماہ میں جاں بحق بچوں کی تعداد 23 ہوگئی ہے جسکے بعد بس اتنا ہی کہونگا کہ سندھ حکومت ان غریبوں پر بھی توجہ دیں جو سالہا سال سے آپکی غلامی کرتے آرہے ہیں رہی بات مری میں ہلاکتوں کی جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے اور شرم کی بات یہ ہے کہ ایک طرف لوگ مر رہے تھے تو دوسری طرف وہاں کے لوگ بے حسی کا مظاہرہ کررہے تھے یہاں تک کہ سیاحوں نے اپنی بیویوں کے زیورات اتار کر ہوٹل والوں کو دیدیے مری سانحہ میں ہمارے معاشرتی رویے عریاں ہو کر سامنے آ ئے ہیں میں تو یہ سوچ کر کانپ جاتا ہوں کہ جب اموات ہو رہی تھیں ایک خاندان کی تو سب سے پہلے کون فوت ہوا ہو گا باپ نے بچے کو مرتے ہوئے دیکھا ہو گا پولیس کے تھانیدار نوید کا پورا خاندان گاڑی میں شہید ہو گیا میرے بس میں ہوتا تو ہوٹل مافیا کے شناختی کارڈ، ہوٹل رجسٹریشن منسوخ کر کے جیل بھیج دیتا۔

سانحہ مری کو روکاجاسکتاتھااگر وہاں کی انتظامیہ اپناکام کررہی ہوتی سوائے دو اداروں کے اور کوئی متحرک نہیں ہوا ایک پاک فوج اور دوسرا واپڈا جنکے ملازمین اپنی ڈیوٹی فرض سمجھ کرنبھاتے رہے باقی سب لوٹ مار میں مصروف تھے اس حادثے کا آنکھوں دیکھا حال ایک سیاح شیخ آصف سے اسی کی زبانی سنتے ہیں ہم لوگ باڑیاں سے آگے کلڈنہ سے تھوڑا پہلے پہنچے تو گاڑیاں سست ہو گئیں اس وقت اندھیرا ہو چکا تھا اور برف تیز ہو چکی تھی اس وقت سوزوکیوں والے اور مزدے والے جاہلوں کی طرح لا ئنیں توڑ کے آگے رستہ بلاک کر رہے تھے اچانک شدید قسم کا برف کا طوفان شروع ہو گیا اور گاڑیاں بلکل رک گئیں رات 12 بجے ہماری گاڑی پہ تقریبا 3 فٹ برف پڑچکی تھی بچوں کو بھوک لگی تھی پوری رات ایک بھیانک قیامت کی طرح گذری عورتوں بچوں کے چیخنے کی آوازیں اتنی خوفناک تھیں کی کلیجہ پھٹتا تھا۔

صبح سات بجے بچوں کو 800, 800 روپے کی دو روٹیاں اور ہم سب نے 1200 فی کپ چائے کے حساب سے ناشتہ کیا ابھی بھی طوفان جاری تھا تقریبا صبح 9 بجے پٹرول ختم ہو گیا بچے ٹھٹھرنے لگے مقامی لوگوں سے 3000 ہزار روپے لٹر پہ پٹرول لیا اب لوگوں کے مرنے سے ایک خوف کی فضا بن چکی تھی اور مقامی لوگ ابھی بھی اسی طرح ایک ہزار روپے کا انڈہ دے رہے تھے کہ اچانک سامنے سے کچھ فوجی جوان آتے دکھائی دیے جو فرشتے لگے آتے ہی انہوں نے بسکٹ اور پانی دیا تھوڑی دیر بعد پراٹھا اور چائے دی ایک جوان جس کی عمر بمشکل 20 سال ہو گی بھاگ بھاک کر ہر گاڑی کے پاس جا رہا تھا انہوں نے قریب ایک مسجد،ایک سکول، ایک مدرسہ اور ایک خالی پولٹری شیڈ میں سینکڑوں لوگوں کو شفٹ کیا مٹی تیل کے چولہے، لکڑیاں، کریٹوں کی پھٹیاں جلا کر ماحول گرم کیا اور کھانے کی چیزیں دینے لگے میجر اور کرنل خود اپنے ہاتھوں میں بوڑھوں کو اٹھا کر اندر لا رہے تھے بوڑھے مرد اور عورتیں بلا بلا کر ان کے ماتھے چوم رہے تھے۔

رات کو سینکڑوں کمبل اور رضائیں آ گئیں پتہ نہیں اس خلائی مخلوق کہ پاس ہر چیز کا حل کیسے موجود ہوتا ہے اگلے دن اتوار کو ہم نکلے اور رات تک اسلام آباد پہنچ گئے اگر فوجی نہ آتے تو اموات ہزاروں میں ہوتیں۔ مری سانحہ نہ صرف مری انتظامیہ کی مکمل ناکامی ہے بلکہ ضلعی انتظامیہ راولپنڈی کی بھی مکمل ناکامی ہے جو صرف تماشا دیکھنے میں مصروف رہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کمشنر،ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر مری اس سانحہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے اپنے استعفے حکومت کو بھجواتے مگر اس کے لیے حوصلہ اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے جو ان افسران میں یقینا نہیں ہو گی اس سانحہ کے بعد پنجاب حکومت نے مری کو ضلع بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے جسکے بعد پنڈی والوں سے جان چھوٹ جائیگی جنہوں نے مری کو صرف کھانے پینے اور تفریح کا زریعہ بنایا ہوا ہے۔

تجویز کے مطابق نئے ضلع کا نام ضلع کوہسارمری ہوگا جو تین تحصیلیں مری، کوٹلی ستیاں، گیدراں پر مشتمل ہوگا نئے ضلع بنانے کے لئے 25 محکموں کو اپ گریڈ بھی کرنا پڑے گا جبکہ اس مقصد کیلئے 4 سے 5 بلین روپے فنڈ درکار ہونگے سیاحتی مقام انتظامی ڈھانچوں میں خود مختار ہوجائے گا۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ضلع کے قیام اور کوہسار ڈویلپمنٹ اتھارٹی کیلئے ہدایات جاری کر دی ہیں ضلع کی حد بندی کے لئے بور ڈ آف ریونیو سے بھی سفارشات طلب کرلی گئیں کوہسار ڈویلپمنٹ اتھارٹی ریسکیو اور ریلیف آپریشن کی بھی ذمہ دار ہوگی اسکے ساتھ ساتھ مری انتظامیہ کو دیے جانے والے تمام فنڈز کا بھی آڈٹ کروایا جائے کہ وہ پیسے کہاں کہاں استعمال ہوئے اور خاص کر مری ہوٹل یونین کا بھی سختی سے محاسبہ کیا جائے کہ وہ اپنے فیصلوں میں اتنے خود مختار کیسے ہوگئے انکے پیچھے کون کون لوگ ہیں جو انہیں لوٹ مار پر اکساتے ہیں اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے انسانوں سے درندے بن گئے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر