میانمار: فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک 138 افراد ہلاک

Myanmar Protest

Myanmar Protest

میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کے مطابق میانمار کی فوج انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ دريں اثناء امریکا نے شہريوں پر تشدد کو ‘غیر اخلاقی اور ناقابل دفاع اقدام‘ قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ نے اپنی ايک تازہ رپورٹ ميں کہا ہے کہ میانمار میں یکم فروری کو بغاوت اور فوج کے اقتدار پر قابض ہو جانے کے بعد سے اب تک پر امن مظاہروں میں کم از کم 138افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 56 افراد گزشتہ اختتام ہفتہ کو ینگون شہر کے ہیلینگ تھایر علاقے میں مارے گئے۔

اقوام متحدہ کے سيکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن جارک نے کہا کہ انٹونیو گوٹیریس میانمار میں مظاہرین کے خلاف جاری تشدد اور عوام کے بنیادی حقوق کی مسلسل خلاف ورزيوں کی شديد مذمت کرتے ہیں۔

امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جالینا پورٹر کا کہنا تھا کہ پچھلے ہفتے کے اختتام پر ہونے والے پرتشدد واقعات ‘غیر اخلاقی اور ناقابل دفاع‘ ہیں۔ انہوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”سکیورٹی فورسز اپنے ہی لوگوں پر حملے کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے ملک بھر میں درجنوں افراد مارے جا رہے ہیں۔”

پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق بین الاقوامی برادری کی جانب سے یہ بیانات جمہوریت نواز مظاہروں میں حصہ لینے والے بارہ افراد کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گزشتہ روز ہلاکت کے بعد سامنے آئے ہیں۔

تشدد کی خبروں کو بظاہر دبانے کے مقصد سے ٹیلی کام سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ملک گیر سطح پرتمام موبائل ڈیٹا کو روک دیں۔

فوجی جنتا نے ملک کے سب سے اہم شہر ینگون کے کئی حصوں میں مارشل لا نافذکر دیا ہے، جس کے بعد فوج کو مخالفین سے نمٹنے کے لیے زیادہ اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔

سرکاری نشریاتی ادارے ایم آر ٹی وی کے مطابق مارشل لا کے ضابطوں کا اطلاق نارتھ ڈیگون، ساؤتھ ڈیگون، ڈیگون سیکان اور نارتھ اوکالپا علاقوں پر بھی ہوگا۔ اس سے قبل اتوار کو دو دیگر شہروں ہلینگ تھار یار اور شویپیتھا میں بھی مارشل لا نافذ کر دیا گیا تھا۔

روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔

چین نے میانمار کے صنعتی علاقے ہلینگ تھایا میں چینی سرمایہ کاری والی 32 فیکٹریوں پر حملے اور لوٹ مار کے واقعات کی مذمت کی ہے۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کے اخبار گلوبل ٹائمز نے لکھا ہے کہ ”مختلف حملوں کے دوران ان فیکٹروں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔”

اس رپورٹ، جس کی ڈی ڈبلیو آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا، میں کہا گیا ہے کہ حملہ آوروں نے 37 ملین ڈالر کی مالیت کا نقصان پہنچایا اور دو چینی ملازمین کو زخمی کر دیا۔

چین نے میانمار کی فوج سے ملک میں چینی کمپنیوں کے اثاثوں اور افراد کی زندگیوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کی اپیل کی ہے۔ بیجنگ حکومت میانمار میں فوجی بغاوت کو اس کا داخلی معاملہ قرار دیتی ہے۔

خیال رہے کہ میانمار میں فوج نے یکم فروری کو بغاوت کے بعد جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور آنگ سان سوچی کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ فوج نے ان پر بدعنوانی کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔ پیر کے روز انہیں عدالت میں پیش ہونا تھا لیکن ان کے وکیل نے بتایا کہ یہ پیشی 24 مارچ تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔