میانمار: سوچی کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ

Aung San Suu Kyi

Aung San Suu Kyi

میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار کی فوجی حکومت نے جمہوریت نواز رہنما آنگ سان سوچی پر غیر قانونی رقومات اور دولت حاصل کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کے خلاف مقدمے کی سماعت آئندہ ہفتے شروع ہونے کی توقع ہے۔

میانمار کی سرکاری میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ملک کے فوجی جنتا نے 10 جون جمعرات کے روز معزول جمہوری رہنما آنگ سان سوچی پر بدعنوانی اور کرپشن کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔

ملکی انسداد بدعنوانی ادارے ‘دی اینٹی کرپشن کمیشن’ نے 75 سالہ نوبل انعام یافتہ رہنما پر جو فرد جرم عائد کی ہے اس میں غیر قانونی طریقے سے سونا حاصل کرنے اور چھ لاکھ ڈالر کی نقدی لینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

اس برس یکم فروری کو میانمار کی فوج نے سویلین حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے آنگ سان سوچی کو گرفتار کر لیا تھا تب سے وہ حراست میں ہیں اور انہیں کرپشن کے علاوہ کئی دیگر مجرمانہ مقدمات کا بھی سامنا ہے۔

حکومتی میڈیا ‘گلوبل نیو لائٹ آف میانمار’ کی رپورٹ کے مطابق بدھ کے روز دارالحکومت نیپی تاومیں ان پر الزامات سے متعلق کیس کی فائلیں پیش کی گئیں۔ ان پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں اس کے تحت انہیں 15 برس کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ ان کے خلاف مقدمے کی سماعت آئندہ ہفتے پیر سے شروع ہونے کا امکان ہے۔

مقدمے کی دستاویزات کے مطابق، ” وہ اپنے عہدے کا استعمال کر کے بدعنوانی کی مرتکب ہوئیں اور اسی لیے انسداد بدعنوانی قانون کی دفعہ 55 کے تحت ان پر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔”

محترمہ سوچی کے وکیل کھن ماؤنز زاؤ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان الزامات کا اصل مقصد یہ کہ انہیں کسی طرح عوام سے دور رکھا جا سکے۔ انہوں نے الزامات کو بے بنیاد بتاتے ہوئے کہا، ”انہیں ملک کے منظر نامے سے دور رکھنے اور ان کے وقار کو مجروح کرنے کے لیے ایک ناقابل تردید سیاسی پس منظر موجود ہے۔”

یانگون کے مقامی وزیر اعلی نے ان پر پہلے ہی یہ الزام عائد کیا تھا کہ محترمہ سوچی نے ان سے گیارہ کلو سونا اور نقد رقم حاصل کی تھی اور فرد جرم میں انہیں الزامات کو دہرایا گیا ہے۔

ان پر اپنے عہدے اور اثر و رسوخ کو غلط طور پر استعمال کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا بے جا استعمال کرتے ہوئے ایک خیراتی ادارے کے لیے کرائیے پر سرکاری املاک حاصل کیں۔

آنگ سان سوچی فوجی بغاوت کے بعد سے ہی اپنے گھر میں نظر بند رہی ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت کے متعدد دیگر رہنما بھی گھروں میں نظر بند ہیں یا جیلوں میں قید ہیں۔

فروری میں فوجی بغاوت کے بعد سے ہی میانمار میں افراتفری کا حال ہے اور اس کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ فوج نے بغاوت کے خلاف احتجاج کو دبانے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ ملک کی معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے جبکہ فوج احتجاج کرنے اور مخالفت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے اور فوجی کارروائیوں میں اب تک 800 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

بغاوت کے بعد سے فوج اور میانمار کے متعدد نسلی باغی گروپوں کے درمیان بھی جھڑپیں جاری ہیں، جس کی وجہ سے لاکھوں شہریوں کو اپنے گھر چھوڑ کر جانے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔