میانمار میں تشدد روکنے کے لیے اقوام متحدہ آگے آئے، سفیر

Myanmar Protest

Myanmar Protest

میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار میں اقتدار پر فوج کے قبضے کے خلاف ہونے والے مظاہرے کچلنے میں اب تک پچاس لوگ مارے جا چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی خصوصی مندوب برائے میانمار نے سلامتی کونسل سے درخواست کی ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف پرتشدد اقدامت کے تناظر میں فوجی حکومت کے خلاف فوری اقدام اٹھائے۔

میانمار میں فوج نے پہلی فروری کو منتخب رہنما آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ برائے جمہوریت (این ایل ڈی) کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ تب سے ملک میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

اقوام متحدہ کی خصوصی مندوب برائے میانمار کرسٹین شرانر برگنیر نے کہا ہے کہ میانمار کے عوام سلامتی کونسل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں تشدد روکنے کے لیے سلامتی کونسل کا کردار ناگزیر ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں فوج مخالف مظاہروں کے شرکاء کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران چار درجن سے زائد افراد ہلاک کر چکے ہیں۔ خاتون سفارت کار نے سلامتی کونسل پر یہ بھی واضح کیا کہ میانمار کی مائیں، طلبہ اور بزرگ مسلسل عالمی برادری سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ ملک میں جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

شرانر برگنر نے میانمار میں جمہوریت کی بحالی اور فوجی حکومت کے خلاف سخت اقدام کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ تاہم سلامتی کونسل کی طرف سے میانمار کی فوجی جنتا کے خلاف کسی سخت کارروائی کا امکان کم ہے کیونکہ دو مستقل اراکین چین اور روس ایسی کسی قرارداد کو ویٹو کر سکتے ہیں۔

چین میانمار کا بڑا حلیف اور ہمسایہ ملک ہے جب کہ روس کے بھی اس ملک کے ساتھ گہرے تجارتی و سفارتی تعلقات ہیں۔

فوجی حکومت کے کریک ڈاؤن کے باوجود میانمار کے طول و عرض میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ بڑے شہروں ینگون اور منڈالے میں بھی جمہوری حکومت کی حمایت میں جلوس نکالے گئے۔ ہفتے کو ملک کے دوسرے بڑے شہر منڈالے میں گولی لگنے سے ایک چھبیس سالہ نوجوان کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔

ینگون میں مظاہرین نے ایک بڑی سڑک کو ریت کے تھیلوں اور اینٹوں سے بلاک کر دیا ہے۔ احتجاج میں شریک ایک شخص کا کہنا تھا کہ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ سکیورٹی اہلکاروں کی چڑھائی کی صورت میں انہیں محفوظ راہ اختیار کرنے کا موقع مل سکے۔

مختلف شہروں میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور اسٹن گرینیڈ کا بھی استعمال کیا۔ ان مظاہروں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں گزشتہ بدھ کو ہوئی تھیں جب فائرنگ سے کم از کم اڑتیس لوگ مارے گئے۔