این ڈی ایم اے کی رپورٹ پر عدم اطمینان، کورونا کے اربوں روپے کہاں جا رہے ہیں؟ چیف جسٹس

Justice Gulzar Ahmed

Justice Gulzar Ahmed

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہےکہ کورونا کے حوالے سے آنے والے اربوں روپے کہاں جارہے ہیں؟

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور کمشنر کراچی سمیت دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) حکومت پاکستان اور مختلف اداروں کی جانب سے ملنے والی امداد کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں۔

این ڈی ایم اے کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی 123 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے ادارے کے لیے 25 ارب 30 کروڑ روپےمختص کیے، وزارت صحت کی جانب سے 50 ارب روپے مختص ہوئے جو تاحال جاری نہیں کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب این ڈی ایم اے کو 8 ارب روپے ملے جب کہ چینی حکومت کی جانب سے 64 کروڑ روپے کی گرانٹ دی گئی۔

این ڈی ایم اے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امداد صرف سامان کی صورت میں وصول کی جاتی ہے، نقد رقم کی صورت میں نہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این ڈی ایم اے امداد کا آڈٹ کرانے کے لیے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے درخواست کر چکی ہے۔

بارڈرز پر قرنطینہ مراکز کے حوالے سے تفصیلات بھی این ڈی ایم اے کی رپورٹ میں شامل ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ تفتان پر 1300 افراد، چمن میں 900 اور طورخم پر 1200 افراد کو قرنطینہ مراکز میں رکھنے کی گنجائش ہے، طورخم پر قرنطینہ مرکز کے لیے 300 کمرے تعمیر کر لیے گئے ہیں جب کہ 1200 اضافی کمروں کی تعمیر کرنے کے انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ تفتان میں 600 میں سے 202 کمرے تکمیل کے قریب ہیں، لوکل ملٹری اتھارٹی کے مطابق مزید کمروں کی ضرورت نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق لوکل ملٹری اتھارٹی نے ٹینٹ ولیج کی صورت میں 1300 کمروں کی سہولت فراہم کر رکھی ہے جب کہ پاکستان ریلویز نے بھی 2 ٹرینیں بطور قرنطینہ مختص کر رکھی ہیں۔

کورونا کے حوالے سے خرچ ہونے والے اربوں روپے کہاں جارہے ہیں؟ چیف جسٹس
این ڈی ایم اے کی رپورٹ پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اربوں روپے کی رقم ماسک اور دیگر چھوٹی اشیا پر خرچ کی گئی ہے، کورونا کے حوالے سے اربوں روپےخرچ ہوچکے ہیں، یہ کہاں جا رہے ہیں؟ رقم کا حساب رکھا جائے۔

نمائندہ این ڈی ایم اے نے بتایا کہ ہمارے لیے 25 ارب مختص ہوئے ہیں، یہ تمام رقم ابھی خرچ نہیں ہوئی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 25 ارب تو آپ کو ملے ہیں، صوبوں کو الگ ملے ہیں اور احساس پروگرام کی رقم الگ ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ 500 ارب روپے کورونا مریضوں پر خرچ ہوں تو ہرمریض کروڑ پتی ہوجائے گا، یہ سارا پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ اتنی رقم لگانے کے بعد بھی اگر 600 لوگ جاں بحق ہوگئے تو ہماری کوششوں کا کیا فائدہ؟ کیا 25 ارب کی رقم سے آپ کثیر المنزلہ عمارتیں بنا رہے ہیں؟

نمائندہ این ڈی ایم اے نے عدالت کو بتایا کہ یہ رقم ابھی پوری طرح ملی نہیں اور اس میں دیگر اخراجات بھی شامل ہیں۔

این ڈی ایم اے کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار
چیف جسٹس پاکستان نے این ڈی ایم اے کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں اخراجات کی کوئی واضح تفصیل موجود نہیں ہے۔

جسٹس گلزار احمد نےریمارکس دیےکہ ہمارے ملک کے وسائل بہت غلط طریقے سے استعمال ہورہے ہیں، ہمارا ملک کورونا ٹیسٹنگ کٹ بنانے کی صلاحیت ابھی تک حاصل کیوں نہیں کرسکا؟ اس ملک کے عوام صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے غلام نہیں ہیں، آپ قرنطینہ کے نام پر لوگوں کو یرغمال بنا رہے ہیں، عوام کے حقوق کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے، آپ کسی پر احسان نہیں کررہے۔

اس پر نمائندہ این ڈی ایم اے نے کہا کہ اس کا جواب وزارت صحت زیادہ بہتر طریقے سے دے سکتی ہے۔