نئے چین کی طاقت سے امریکا آگاہ نہیں، صدر شی

China Raketenwerfer

China Raketenwerfer

چین (اصل میڈیا ڈیسک) چین میں سن 1950 کی دہائی میں لڑی جانے والی کوریائی جنگ میں ’فتح‘ کی سترہویں برسی منائی گئی۔ اس موقع پر چینی صدر نے ملکی عسکری قوت کو تقریر کا موضوع بنایا۔

چین میں سن1950 سے 1953تک لڑی جانے والی جزیرہ نما کوریا کی جنگ میں ‘فتح‘ کی سترہویں برسی منائی گئی۔ اس موقع پر منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں چینی صدر شی جن پنگ نے ملکی عسکری قوت سے متعلق ایک طویل تقریر کی۔ اس تقریر میں حب الوطنی کے روایتی احساسات اور جذبات کو بھی سمویا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق صدر شی کی تقریر میں بظاہر اپنی فوجی قوت کا بیان کیا جا رہا تھا لیکن ان کے دماغ میں امریکا موجود تھا۔

کوریائی جنگ کا ذکر کرتے ہوئے چینی صدر کا کہنا تھا کہ ستر سال پہلے کی جنگ اس کا اظہار تھا کہ ان کی قوم ملک کے قریب پہنچتی کسی بھی مصیبت کا سامنا کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ چین ایک بڑی قوت کا ملک ہے اور اسے امریکی دھمکیوں سے ڈرایا دھمکایا نہیں جا سکتا۔

ماہرین کے مطابق کسی بھی اہم سولین یا ملٹری تقریب کے موقع پر بیجنگ حکومت اپنی فوجی قوت کا تذکرہ اس انداز میں کرتی ہے کہ مخالفین یہ جان لیں کہ ‘نیا چین‘ ایک بڑی طاقت کا حامل ہے اور چیلنج کرنے والے اس قوت سے خبردار رہیں۔ اس تناظر میں خاص طور پر امریکا پر غیر اعلانیہ فوکس کیا جاتا ہے۔

جمعہ تیئیس اکتوبر کو منعقد ہونے والی تقریب ایسے موقع پر منائی گئی جب بیجنگ حکومت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے ساتھ کئی معاملات پر تنازعات جاری ہیں۔ ان متنازعہ معاملات میں تجارت، ٹیکنیکل، انسانی حقوق اور تائیوان کے اسٹیٹس پر سخت الفاظ کے حامل جملوں کا تبادلہ جاری ہے۔ تائیوان کو چین اپنی سرزمین کا علیحدہ مگر لازمی حصہ قرار دیتا ہے۔

صدر شی کی تقریر میں تائیوان کا ذکر اس لیے بھی اہم ہے کہ رواں ہفتے کے دوران اکیس اکتوبر کو امریکا نے تائیوان کے لیے نئے ہتھیار فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ امریکی وزارتِ دفاع کے مطابق تائیوان کو ایک بلین ڈالر مالیت کے جدید میزائل فراہم کیے جائیں گے۔ اس اعلان سے امریکا اور چین میں مزید کشیدگی و تناؤ میں اضافہ ہونے کا قوی امکان ہے۔

جمعے کو منعقد ہونے والی تقریب میں صدر شی نےامریکا کا نام لیے بغیر مگر امریکا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کوریائی جنگ کے تاریخی نظائر و نتائج کو ملکی عوام اور بین الاقوامی سامعین کے لیے پیش کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ آج کے دور میں بھی یک طرفیت اور اتحادیوں کے بغیر خارجہ تعلقات استوار کرنے، ملکی صنعتی پیداوار کو بیرونی سرمائے سے محفوظ رکھنے اور اپنی انتہائی برتری کے زعم میں مبتلا ہونا دیکھا جا رہا ہے۔

تقریر کرتے ہوئے شی جن پنگ نے کہا کہ چینی عوام مسائل پیدا کرنے کے دلدادہ نہیں ہیں اور نہ ہی کسی مشکل وقت کا سامنا کرنے سے گبھراتے ہیں۔ انہوں یہ بھی کہا کہ چینی لوگ اور حکومت بیکار نہیں رہتی اور یہ ہمہ وقت اپنی جغرافیائی خود مختاری پر نگاہ رکھے ہوئے ہے تا کہ کوئی اسے نقصان اپہنچانے کی کوشش میں تو نہیں ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ کوریائی جنگ صرف واحد ایک مثال ہے جب امریکی اور چینی فوجیں آمنے سامنے ہو کر ایک خونی جنگ میں شریک ہوئی تھیں۔ یہ جنگ بظاہر کسی منطقی نتیجے کے بغیر ہی ختم ہو گئی تھی لیکن اس صور حال کو چینی حکومت نے ایک ‘فتح‘ کے طور پر لیا تھا۔ اس جنگ میں تقریباً دو لاکھ چینی فوجی مارے گئے تھے اور ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد ساڑھے چھتیس ہزار سے زائد تھی جب کہ جنوبی کوریا کے ایک لاکھ سینتیس ہزار فوجی مارے گئے تھے۔ یہ بات ضرور دیکھی گئی کہ شمالی کوریا اور چینی افواج نے امریکی کی قیادت میں اقوام متحدہ کی فوج کو پیچھے دھکیل کر سرحدی لائن اڑتیسیویں پیرلَل تک پہنچا دیا تھا۔