ابھیجیت بینرجی کو نوبل انعام: بھارتی حکمران اور اپوزیشن جماعتوں میں تکرار

Narendra Modi

Narendra Modi

ممبئی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی نژاد امریکی ماہر اقتصادیات ابھیجیت بینرجی کو نوبل انعام کے لیے منتخب کیے جانے پر یوں تو بھارتی عوام خوشی کا اظہار کر رہے ہیں تاہم ملک کی حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اس معاملے پر لفظی جنگ چھڑ گئی ہے۔

اس کی اہم وجہ ابھیجیت بینرجی کی طرف سے مودی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی نکتہ چینی اور اپوزیشن کانگریس کے لیے اقتصادی پروگراموں کی تیاری میں معاونت بتائی جا رہی ہے۔

رائل سویڈش اکیڈمی کی طرف سے اقتصادیات کے نوبل انعام کے لیے ابھیجیت بینرجی، ان کی اہلیہ ایستھر ڈوفلو اور مائیکل کریمر کے ناموں کا جیسے ہی علان ہوا، بھارت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

کلکتہ یونیورسٹی اور دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ بھارتی نژاد امریکی شہری بینرجی کو مبارک باد دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

تاہم کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود جب وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے مبارک باد کا کوئی پیغام دیکھنے اور سننے کو نہیں ملا، تو لوگوں نے حیرت، تعجب اور افسوس کا اظہار شروع کردیا۔ بہر حال وزیر اعظم مودی نے ایک ٹوئیٹ کر کے ابھیجت بینرجی کومبارک باد دی۔

وزیر اعظم مودی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا، ”ابھیجیت بینرجی کو الفریڈ نوبل کی یاد میں اقتصادی سائنس میں 2019 کا Sveriges Riksbank انعام سے نوازے جانے پر مبارک باد۔ انہوں نے انسداد غربت کے شعبہ میں نمایاں کام کیا ہے۔”

مودی نے ایک اور ٹوئٹ میں لکھا، ”میں باوقار نوبل انعام جیتنے پر ایستھر ڈوفلو اور مائیکل کریمر کو مبارک باد دیتا ہوں۔”

اس ٹوئٹ پر سوشل میڈیا میں صارفین نے وزیر اعظم مودی پر ‘تنگ دلی‘ کا الزام لگایا۔ بعد میں اپوزیشن کانگریس اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماوں کے درمیان اس معاملے پر باضابطہ لفظی جنگ چھڑ گئی۔

کانگریس کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر کپل سیبل نے ٹوئٹ کیا، ”کیا مودی جی سن رہے ہیں؟ ابھیجیت بینرجی نے کہا ہے کہ ہماری معیشت ڈگمگا رہی ہے۔ حکومت اعداد و شمار میں ہیر پھیر کرتی ہے۔ اوسط شہری اور دیہی افراد کی قوت خرید میں کمی آ گئی ہے۔ سن ستر کی دہائی کے بعد ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہم سب بحران سے دوچار ہیں۔ وزیر اعظم اب تو کام پر لگ جائیے، تصویریں مت کھنچوائیے۔”

کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے ابھیجیت کو مبارک باد دیتے ہوئے ٹوئٹ کیا، ”ابھیجیت نے اصولی انصاف دلانے میں مدد کی، جس میں غربت کو ختم کرنے اور بھارتی معیشت کو بہتر بنانے کی طاقت ہے۔ لیکن اس کے بجائے ہمارے یہاں ‘مودی نومکس‘ ہے جو معیشت کو ختم کر رہی ہے اور غربت میں اضافہ کررہی ہے۔”

دوسری طرف حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی کانگریس پر جوابی حملہ شروع کر دیا۔ بی جے پی کے رکن پارلیمان اننت ہیگڑے نے اپنی ناراضی ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا، ”ہاں وہ آدمی جس نے مہنگائی بڑھانے اور پپو (بی جے پی کی طرف سے راہل گاندھی کے لیے استعمال کیا جانے والا طنزیہ نام) کے ذریعے سے ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ کرنے کی سفارش کی تھی، اسے 2019 کے نوبل انعام کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔” بی جے پی یوتھ ونگ کے ایک نائب صوبائی صدر ایس جے سوریا نے تو یہ دعوی کردیا کہ ‘اقتصادیات کے لیے کوئی نوبل انعام دیا ہی نہیں جاتا‘ ہے۔

ابھیجیت سے ناراضی اور انہیں اتنی بڑی کامیابی پر مبارک باد دینے میں حکمراں بی جے پی کی سرد مہری کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ایم آئی ٹی سے وابستہ پروفیسر ابھیجیت مودی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں اور اقدامات پر کھل کر رائے ظاہر کرتے رہے ہیں۔

وزیر اعظم مودی نے جب بڑے نوٹوں پر پابندی (ڈیمونیٹائزیشن) کا اعلان کیا تھا تو ابھیجیت بینرجی نے اس کی سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا، ”میں اس فیصلے کی منطق کو نہیں سمجھ پا رہا ہوں، جیسے کہ دو ہزار روپے کے کرنسی نوٹ کیوں جاری کیے گئے۔ میرے خیال میں اس فیصلے کی وجہ سے جتنے بڑے بحران کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے،حقیقی بحران اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔”

ابھیجیت دنیا کے ان 108 ماہرین اقتصادیات میں بھی شامل تھے، جنہوں نے مودی حکومت پر ملک کے جی ڈی پی کے اعدادوشمار میں ہیر پھیر کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔

گزشتہ عام انتخابات سے قبل کانگریس کے اس وقت کے صدر راہل گاندھی نے ابھیجیت بینرجی سے ملاقات کر کے غریبوں کے بہبود کے لیے کوئی قابل عمل اقتصادی پروگرام پیش کرنے کی گزارش کی تھی۔ جس پر بینرجی نے ‘نیائے‘ (غریبوں کے لیے کم از کم آمدنی) اسکیم کا آئیڈیا دیا تھا۔ اس کے تحت خط افلاس سے نیچے رہنے والے افراد کو ماہانہ چھ ہزار روپے کی مالی مدد دینے کی بات کہی گئی تھی۔ کانگریس نے اسے اپنے انتخابی منشور میں شامل کیا تھا۔

ابھیجیت بینرجی نے نوبل انعام کے لیے منتخب کیے جانے کے بعد ایک بار پھر کہا، ”بھارتی معیشت بہت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ حکومت بھی اب یہ ماننے لگی ہے کہ کچھ مسئلہ ہے۔ معیشت تیزی سے سست رفتاری کی طرف جا رہی ہے، کتنی تیزی سے یہ ہمیں نہیں معلوم، کیوں کہ اعدادوشمار کے سلسلے میں اختلافات ہیں۔”