پاپائے روم شمالی عراق کے دورے پر

Pope Francis

Pope Francis

عراق (اصل میڈیا ڈیسک) کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس عراق کے اپنے تاریخی دورے پر اتوار کو موصل اور اربیل پہنچے ہیں۔

سن 2014 میں مسلح گروہ داعش نے ان علاقوں پر قبضہ کر کے لوگوں کا قتل عام کیا تھا اور قدیمی گرجا گھر تباہ کر دیے تھے۔

اتوار کو پوپ فرانسس موصل شہر پہنچے اور تباہ شدہ کلیساؤں کے کھنڈرات میں دعائیں مانگیں۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ عراق اور مشرق وسطیٰ سے صدیوں سے مقیم مسیحی آبادی کی نقل مکانی نے ”نہ صرف وہاں کے لوگوں اور آبادیوں بلکہ وہاں کے معاشروں کو بے حد نقصان پہنچایا۔‘‘

وہ بعد میں اربیل میں اتوار کے مذہبی اجتماع میں شرکت کریں گے۔ خیال ہے کہ اس اجتماع میں دس ہزار مسیحی عقیدت مند شریک ہوں گے۔

بعض حلقوں کو تشویش ہے کہ اتنے سارے لوگوں کو ایک جگہ جمع کرنے سے کورونا وائرس پھیل سکتا ہے۔ عراق میں پچھلے ایک ماہ کے دوران انفیکشنز کی تعداد میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ملک میں کورونا ویکسین ابھی پچھلے ہفتے ہی پہنچنا شروع ہوئی ہے۔

پاپائے روم کی عمر 84 سال ہے۔ وہ اور ان کے وفد میں شامل ارکان کو دورے سے پہلے ہی وائرس سے بچاؤ کی ویکسین دی جا چکی ہے۔

اس دورے کے موقع پر سکیورٹی انتہائی سخت رکھی گئی۔ پاپائے روم کی حفاظت کے لیے دس ہزار کے قریب عراقی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں جبکہ شہریوں کی نقل و حرکت انتہائی محدود کر دی گئی ہے۔

پاپائے روم کا عراق کا یہ پہلا دورہ ہے۔ اس سے قبل ہفتے کو انہوں نے نجف میں شیعہ مسلمانوں کے معتبر اور با اثر رہنما آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کر کے خطے میں امن اور مذہبی ہم آہنگی کا پیغام دیا۔

عراق پر سن 2003 میں امریکی حملے کے بعد سے وہاں صدیوں سے مقیم مسیحی آبادی کو مسلسل خوف و خطرات کا سامنا رہا ہے، جس کے باعث لوگ دربدر اور نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

عراق میں صدام حسین کی معزولی تک 14 لاکھ مسیحی بستے تھے، جن کی اب تعداد گھٹ کر محض 2.5 لاکھ رہ گئی ہے۔

اس میں ایک بڑی تعداد شمالی عراق میں بستی تھی جو سن 2014 میں شدت پسند گروہ داعش کے حملوں اور زیادتیوں کے بعد ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئی۔