جوہری ہتھیاروں پر کنٹرول کے لیے نئے اقدامات کی ضرورت ہے: جرمنی

Hiroshima Anniversary

Hiroshima Anniversary

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرائے جانے کی برسی کے موقع پر کہا ہے کہ دنیا کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس دن کیا ہوا تھا اور جوہری طاقتوں کو نیوکلیائی معاہدوں سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سختی سے پورا کرنے کی ضرورت ہے۔

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ”جوہری ہتھیاروں پر قابو پانے اور نیوکلیائی اسلحوں میں تخفیف کے سلسلے میں نئی تحریک اور مہم چلانے کی درخواست کی ہے۔” ان کا یہ بیان جاپان کے شہر ہیرو شیما پر جوہری بم گرانے کی 75ویں برسی کے موقع پر آیا ہے، جب امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر نیوکلیائی ہتھیار استعمال کیے تھے۔ امریکا نے چھ اگست سن 1945 کی صبح ہیروشیما پر جوہری بم گرایا تھا جس میں ایک لاکھ 40 ہزار افراد، جن میں سے بیشتر فوری طور پر، ہلاک ہوگئے تھے۔

تاریخی اعتبار سے دشمن ملک کے خلاف جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اس بارے میں کہا، ”دنیا کو کبھی بھی یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ہیرو شیما میں کیا ہوا تھا اور پھر چند روز بعد ناگاساکی میں کیا ہوا۔۔۔۔ اور آخر کیوں؟”

جرمن وزیر خارجہ کے طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جرمنی اور جاپان عالمی جوہری طاقتوں سے، ”مطالبہ کرتے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں پر قابو پانے اور جوہری تخفیف اسلحہ سے متعلق ان کی جو خصوصی ذمہ داریاں ہیں ان پر وہ سختی سے عمل کریں۔”

جرمن وزیر خارجہ نے عالمی جوہری طاقتوں پر اس بات کے لیے نکتہ چینی کی کہ ان کی کوتاہیوں کے سبب اس سے متعلق بین الاقوامی معاہدے بے اثر اور ختم ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دوسروں کے لیے ایک ناقص مثال قائم ہوتی ہے جس سے، ”شمالی کوریا جیسے ممالک کو بھی جوہری ہتھیاروں کو حاصل کرنے کا حوصلہ ملا۔” ہائیکو ماس کا کہنا تھا کہ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کیونکہ جوہری طاقتیں ”وقتی مفاد کے لیے غیر ذمہ دارانہ طاقت کی سیاست کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔”

ان کا کہنا تھا کہ جس انداز میں شمالی کوریا نے جوہری طاقت کے حصول کے لیے اپنے عزائم اور خواہشات کا اظہار کیا ہے، اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مسئلہ بین الاقوامی برادری کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔

مریکا جاپان کے خلاف جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بعد اس سلسلے میں جو دلائل پیش کرتا رہاہے وہ آج تک متنازعہ ہیں۔ اس وقت کے امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین نے جاپان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے لیے دوسرے شہر ناگا ساکی پر بھی جوہری بم گرانے کا حکم دیا تھا۔ ناگا ساکی پر دوسرا بم نو اگست سنہ 1945 کو گرایا تھا اور اس حملے میں 74 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس طرح جاپان نے 15 اگست کو اتحادی فوج کے سامنے سرنڈر کر دیا تھا اور جاپانی حکومت نے دو ستمبرکو ہتھیار ڈالنے کے سلسلے میں ایک باقاعدہ معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہوگیا۔

اس وقت امریکا، روس، برطانیہ، فرانس اور چین جیسے پانچ ممالک کو عالمی جوہری طاقت مانا جاتا ہے۔ بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کر چکے ہیں جبکہ غالب یقین یہ ہے کہ اسرائیل کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہیں۔ لیکن یہ ممالک سنہ 1970 میں ہونے والے جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق عالمی معاہدے کا حصہ نہیں ہیں۔

امریکا اور روس کے درمیان جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے سلسلے میں ایک معاہدہ تھا تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے اس سے یہ کہہ کر الگ ہونے کا اعلان کیا ہے کہ روس اس طرح کے معاہدے کی پابندی نہیں کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں فریقین کے درمیان ‘دی نیو اسٹریٹیجک آرمس ریڈکشن ٹریٹی’ (ایس ٹی اے آرٹی) کے نام سے بھی ایک معاہد ہے جس کی معیاد آئندہ برس فروری میں ختم ہورہی ہے اور اگر اس معاہدے کی بھی تجدید نہیں ہوتی ہے تو پھر دونوں کے درمیان جوہری تخفیف اسلحے اور اس پر کنٹرول کا کوئی بھی معاہدہ باقی نہیں رہے گا۔