پرانا پاکستان انشاءاللہ

Pakistan

Pakistan

تحریر : شاہ بانو میر

بائیس سال تک مشقت ایسی کہ
جیل میں چکی پیسنے والے کسی عمر قید کے قیدی نے بھی نہ کاٹی ہوگی
سیاسی شعور بھٹو کے بعد
پہاڑوں میں ڈھلوانوں میں میدانوں میں
شہر شہر گاؤں گاؤں قریہ قریہ
پہنچانے والے انسان کو
دنیا بھر سے پزیرائی ملی
پاکستانی سیاست نے نئی کروٹ لی
مدتوں سے سیاسی استھان پر قابض دو مخصوص جماعتوں کا
سیاسی طور پے خاتمہ کرنا مقصود تھا
سندھ میں ایک بڑی سیاسی جماعت کو ختم کرنے والے سمجھ رہے تھے
اس کامیابی کے بعد پنجاب میں بھی آسانی سے وہ یہ کر جائیں گے
مگر
عرصہ دراز کی سیاست نے بچے بچے کو باور کروا دیا
کہ
پاکستان میں نہ کوئی نیا ہے اور نہ ہی اچھوتا
جو ہے وہ وہی نظام ہے
جو کل تھا وہی آج بھی ہے
لیکن
اس کو مانا نہیں جا رہا تھا
نیا پاکستان ریاست مدینہ کی صورت
جبکہ
اصلیت کچھ اور تھی
طویل جدوجہد کے بعد پاکستان کی عوام نے عمران خان کو چنا
ہر بات بے مثال ہر فقرہ لاجواب
عوام نے چنا کہ
آتے ہی بس ہمارے دلدر دور ہو جائیں گے
افسوس صد افسوس
اقتدار ملنے کی دیر تھی عمران خان نے اسے ملک کا وزیر اعظم سمجھ کر نہیں چلایا
اپنا گھر اور اپنے دشمن سمجھ کر لسٹ تیار کی
یوں یہ مقتدر جماعت یوں آپے سے باہر ہوئی
جیسے عمر بھر کی محرومیوں کے بعد
قدرت نے ان کو موقعہ دیا ہے
کہ
ٹوٹ پڑو
انہیں سیاسی مخالفین نہیں بھارتی جاسوس سمجھ کر سلوک کرو
رہنما خود کہتا رہا
ان کے ساتھ نفسیاتی جنگ یوں لڑنی ہے
کہ
ان کے اعصاب تباہ کر دیے جائیں
یہ تیسری بار تھی
عوام کے مقبول عوامی رہنما کے ساتھ ہر بار
اقتدار میں یہی آنکھ مچولی کھیلی جاتی رہی
لہٰذا
جم کر سیاسی حریفوں پر حملے کئے گئے
بائیس کروڑ میں سب کےسب دودھ میں دھلے ہوئے
صرف بائیس لوگ چنے ہوئے
ایک دم چور ڈاکو لٹیرے اور نجانے کیا کیا بنا دیے گئے
کیا ملک کیا بیرون ملک
صرف زبان درازی بد لحاظی اور بد تمیزی کا ایسا بہیمانہ مظاہرہ دیکھا گیا
کہ
پاکستانی عوام حکومتی انداز دیکھ کر
سمجھ گئی
کہ
یہ نظام یہ لوگ زیادہ دیر تک نہیں چل سکیں گے
سیاسی قیادت ساری کی ساری
اسیری میں
میڈیا پر مکمل جانبداری کا حکم
عوام اپنے پچھلے سیاسی رہنماؤں کی اگلی پچھلی سیاسی غلطیاں بھول گئی
باتیں باتیں
طنز کے تیر جاہل عورتوں کی طرح طعنے
عوام ذہنی طور پے تھک گئی ان سے
ویلے لوگ کام دھام کچھ نہیں
صرف شور
ان کے نزدیک سیاست پہلے بھی یہی تھی
اور
اب بھی یہی ہے
حالانکہ
باعمل اور اہل ہُنر
وقار اور خاموشی کے وطیرے میں
اپنی ذات کی خامیاں مسکرا کر چھپا جاتے ہیں
لیکن
یہاں ایک تو آتا جاتا کچھ نہیں سوائے باتوں کے

طرہ یہ کہ
دنیا جہاں سے پڑھے لکھے بد زبان چن چن کر لائے گئے
پرانے پاکستان کو توڑ کر نیا پاکستان بنانے کیلئے
الامان الحفیظ
تیرہ ماہ یوں لگتا ہے
قوم نے ان کی صورت کوئی بد دعا خود اپنے لئے مانگی ہو
پاکستان ہر سطح پر پیچھے جانے لگا
پھوھڑ عورت کی طرح
اس ملک کانظام ان پھوھڑ لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا
حشر بپا کر دیا
آپ کو آئی ایم ایف میں جانا پڑا
ملک کی معیشت صفر سے بلند درجے تک لے جانے کے لئے
آپکو کیا کرنا چاہیے تھا؟
خاموشی صرف خاموشی
اور
کام
جس کی امید اس قوم نے ان کی بڑکوں سے لگا رکھی تھی
وہ تو اتنے مہینوں میں دکھائی نہ دیا
البتہ
بے لگام گھوڑے کی طرح ہرطرف پنجابی زبان کا
کھلارہ
ڈال دیا گیا
جو سمیٹنے میں نہیں آرہا تھا
ملک کا ہر شعبہ کچھ ویسے ضعیف اور رہی سہی کسر
ان کی بد زبانیوں نے پوری کر دی
اِک حشر بپا ہوگیا
اندرونی کمزور یوں کا اندازہ لگاتے ہی کشمیر کا سانحہ رونما ہوا
پھر بھی وزیرا عظم کو ہوش نہیں آیا
باہر ممالک میں مدد کیلئے بھاگتے پھرے
جس کا نتیجہ سوائے اخراجات کی مد میں اضافے کے
اور
کچھ نہ نکلا
یا
ایک تاریخی تقریر جو پُر اثر تھی
لیکن
نتائج کے حوالے سے بے اثر

فرعون نمرود ایسے ہی تاریخ نے محفوظ نہیں کیے
ظالم کے ظلم کو اللہ وہاں سے مٹاتا ہے
جہاں سے متکبر سوچ بھی نہیں سکتا
یہی اس حکومت کے ساتھ ہوا
سیاسی حریف کا مذاقق اڑانا تو
ان تعلیم یافتہ جاہلوں کا وطیرہ تھا
لیکن
قدرت اب مکافات عمل شروع کر چکی تھی
ہر تقریر میں چٹکلے کے طور پے مولانا فضل الرحٰمن کا نام لیا جاتا تھا
جب مولانا فضل الرحٰمن نے دھرنے کا اعلان کیا
کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا
عوام رُل گئی مر گئی
اور
ایسی سیاسی ابتری
جس میں سیاسی مضبوط حریف کی اشد ضرورت تھی
جو حکومت کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو سکے
اہم جماعتوں کے تمام بڑے سیاسی حریف تو قید و بند کی صعوبتوں کو جھیل رہے تھے
اختلاف رائے کیلئے کسی میں طاقت ہی نہ تھی

ایسے میں بہت ہی باریک بینی سے
ملکی حالات سیاسی معاملات کا معیشت پر گہرا غور و خوض کر کے
مکمل ہوم ورک کر کے استقامت کے ساتھ
ملک بھر میں عوامی تائید کو حاصل کر کے
یہی مولانا فضل الرحٰمن نے آزادی مارچ بہت سوچ سمجھ کر
دھیمے اور سلجھے ہوئے انداز سے شروع کیا
پرسکون ہنستے مسکراتے پر اعتماد
اس لئے
کہ
جانتے ہیں کہ
عوام کی آواز اب وہی ہیں
مولانا آزادی مارچ کے ساتھ نکلے اور اسلام آباد آن پہنچے
ٹھٹھے کرتی مولانا کا مذاق اڑاتی حکومت
غریب لوگوں کے جم غفیر سے بوکھلا گئی
بارش ہو یا کوئی اور آزمائش پورا اترنے والے
مضبوط ایمان کے ساتھ آہنی عزائم کے مالک
بھوک پیاس کے عادی سرفروش
جو اب خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں
تیرہ ماہ سے مقبوضہ کشمیر کی طرح مفلوج نظام کے الجھنیں
ان کے آتے ہی جیسے سلجھنے لگیں
ایک ایک گرہ کھلنے لگی
عدلیہ کا حکم نامہ ملا
سیاسی اسیروں کی رہائی کے ساتھ ساتھ میڈیا رہا ہونے لگا
نواز شریف جس پر ساری اذیتوں کے سلسلے دراز تھے
جس نے تاریخ رقم کی
پہلے
بستر مرگ پر بیوی کو مرتا چھوڑ کر آیا
گرفتاری دی
عدالتوں کا سامنا کیا
لیکن
کم ظرف سیاست کی تشفی نہیں ہوئی
بیٹی کو جان بوجھ کر جیل میں باپ کے سامنے گرفتار کیا گیا
ذہنی طور پے ہراساں کرنے کا
یہ قبیح عمل بیماری میں بھی جاری رکھا گیا
یوں ایک کے بعد کئی بیماریوں نے اس کے گرد شکنجہ کس لیا
اداروں کی ملی بھگت سے
اپنے قائد کو یوں بے بسی سے موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر
عوام بپھرنے لگی
نظام کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں
زندگی موت اللہ کے اختیار ہے
یہ زمینی خدا ہار گئے
کال کوٹھڑی سے اللہ نے ایک بار پھر لا باہر نکالا
آج ساری بندشیں ختم ہو گئیں
ہو سکتا ہے کل پرسوں باہر بھی چلے جائیں
ثابت یہ ہوا
کہ
ہم وطنو
نظام اور پاکستان ہر دور میں یہی تھا یہی رہے گا
ایک بار پھر
پرانا نظام پرانا پاکستان مبارک ہو

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر