اپوزیشن جہانگیر ترین پر داؤ کھیلنے کی خواہاں، عدم اعتماد کی تاریخ غیر واضح

Jahangir Tareen

Jahangir Tareen

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) اپوزیشن کو یقین ہے کہ اُس کے پاس جہانگیر ترین گروپ کی حمایت موجود ہے جس میں حکمران جماعت کے 6؍ ارکان قومی اسمبلی جبکہ 13؍ سے 17؍ کے قریب ارکان صوبائی اسمبلی موجود ہیں۔ تاہم، اپوزیشن اس بات پر غیر یقینی کا شکار ہے کہ وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کب لائی جائے۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین گروپ نے نون لیگ کے رہنمائوں سے کہہ دیا ہے کہ پنجاب میں گروپ کے پاس 17؍ ارکان کی حمایت موجود ہے جبکہ نون لیگ کے حساب کے مطابق یہ تعداد 13؍ ہے۔ تاہم، اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے یہ ناراض رہنما نہ صرف براہِ راست نون لیگ کے ساتھ رابطے میں ہیں بلکہ جہانگیر ترین بھی اپوزیشن کی مدد کے معاملے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی لحاظ سے جہانگیر ترین نون لیگ سے قربت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ہفتے کو دی نیوز نے انکشاف کیا تھا کہ نون لیگ کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے پی ٹی آئی کے ناراض لیکن با اثر رہنما جہانگیر خان ترین کے ساتھ خفیہ ملاقات کی تھی۔

اب تک اپوزیشن کی جانب سے جہانگیر ترین کو لبھانے کی کوشش کو بڑی حد تک کامیاب قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن اپوزیشن اور جہانگیر ترین گروپ کے درمیان قربت کے باوجود، اپوزیشن کو وزیراعظم عمران خان یا پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں اطمینان حاصل نہیں لگتا۔

بات صرف عددی کھیل کی ہی نہیں ہے، سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے ارکان اسمبلی کی مطلوبہ تعداد لانا ہے وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب حکومت کے پاس عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے ارکان کی کافی تعداد اور تمام وسائل موجود ہیں۔

چند اپوزیشن رہنمائوں کے ساتھ بات چیت سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ عمران خان کیخلاف تحریک لانے کے معاملے میں کسی جلد بازی میں نہیں ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ تحریک اس وقت لائیں گے جب انہیں اس کی کامیابی کا یقین ہو جائے گا۔

میڈیا میں بات چیت کرتے ہوئے اپوزیشن رہنما بالخصوص نون لیگ سے تعلق رکھنے والے لیڈرز عدم اعتماد کی تحریک کامیابی کے معاملے میں بہت ہی پرامید نظر آ رہے ہیں۔ تاہم، نجی طور پر جب ان سے سوال کیا جاتا ہے تو یہ لوگ مطمئن نہیں لگتے۔

حال ہی میں مریم نواز نے کہا تھا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک لانے کا خطرہ مول لیا جائے۔ یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں اب تک کسی وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پہلے کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔