14 اگست 1947 سے شاہراہ سری نگر تک

Pakistan independence Day 14 August

Pakistan independence Day 14 August

تحریر : حلیم عادل شیخ

پاکستان رمضان کی 27 شب کو آزاد ہوا ،جو جمعتہ الوداع کا ایک مبارک دن تھا،یہ 14اگست 1947کی تاریخ ہے جس کا وجود ان برکتوں والی رات اور دن کے ساتھ جڑاہے جس میں اللہ پاک کی خوشنودی اور رضا کو صاف اور شفاف انداز میں دیکھا جاسکتاہے ،چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب انڈیا کی تقسیم پر سرکاری مہر ثبت ہوگئی ،یہ مسلمانوں کی اکثریت والا ملک مشرقی اور مغربی پاکستان کے ساتھ ملکر کر بنا، قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے جن سے لارڈ ماونٹ بیٹن نے پاکستان کے پہلے دارلحکومت کراچی میں حلف لیا،پاکستان کی آزادی کے بارے میں جب بھی خیال آتاہے ہمارے زبانوں سے اللہ پاک کا شکر اداکرنے کے کلمات نکلتے ہیں۔کیونکہ ہم نے تو آزاد فضا میں اپنی آنکھوں کو کھولا ہے مگر ہمیں اس خونی تاریخ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کیونکہ اس میں ہمارا نہ سہی مگر اس ملک کی بنیادوں میں ہماری مائوں بہنوں بیٹیوں، بیٹوں اور بزرگوں کا خون شامل ہے۔

آزادی کسے کہتے ہیں اور اس کی قیمت کیا ہے یہ صرف وہ لوگ ہی بتاسکتے ہیں جن کے نسل درنسلیں غیروں کی غلام رہی ہو ، جن کی سرزمین پر غیروں کا تسلط ہو، یہ ہی وہ مقام ہے جہاںمقبوضہ کشمیر کے مظلوم بہن بھائیوں کا زکر کیا جاسکتاہے کیونکہ مقبوضہ وادی میں اٹھنے والی آزادی کی جدوجہد اب دنیا بھر میں ایک مثال بن چکی ہے ۔آزادی حاصل کرنے سے لیکر آج تک ہمارے پاکستان کے بسنے والے لوگو ں کے زہنوں میں ایک آزاد وطن کی شمع تو جل چکی تھی اور ہم ایک آزاد ملک میں اپنی مرضی کی زندگیاں بھی گزارنے لگے تھے مگر ہمیں صرف پاکستان ہی نہیں چاہیے تھا ہمار ے مسلمان بہن بھائی جو کشمیر میں بھی موجود تھے ہمیں ان کو بھی آزادی کی ان خوشیوں میں شامل کرنا تھا،آزادی کے کچھ مہینوں میں ہی کشمیر میں پاکستان اور ہندوستان کی جنگ چھڑ گئی، جو تقسیم کا قانون تھا کہ اس کے مطابق کشمیر کے پاس یہ حق حاصل تھا کہ کشمیر چاہے پاکستان کا حصہ بن جائے یا پھر بھارت کا لیکن ہندوستان کے حکمران یہ جانتے تھے کہ کشمیرکی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے یہ لوگ کبھی بھی بھارت کے ساتھ الحاق نہ کرینگے جبکہ ستم ظریفی یہ بھی تھی کہ کشمیر کا راجہ خود ایک ہندو تھا جس نے زہنی طورپر بھارت سے الحاق کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔

اس بات کو بھانپتے ہوئے پاکستان کی جانب سے کشمیر میں مسلم مزاحمتی تحریک کا زور شروع ہوا، اور اکتوبر 1947میں ہی مسلہ کشمیر کے لیے جنگ شروع ہوگئی ،جو یکم جنوری1949تک جاری رہی جس کا نتیجہ سیز فائر کی شکل میں ہی نکل سکا۔ کشمیر کے لیے پاکستان کی جدوجہد رک نہ سکی دوسری بار جنگ 1965میں ہوئی جس میں خوب خونریزی ہوئی اس کے بعد 1971میں بھی خانہ جنگی چھڑی،کیونکہ پاکستان کی افواج اور اس میں بسنے والی عوام کو اپنے ساتھ کشمیر کی آزادی بھی درکار تھی ، آج کشمیر میں بھارت نے جس اندازمیں دنگا فساداور خونریزی کا بازار گرم کیاہوا ہے وہ بھی کسی کی آنکھ سے اوجھل نہیں رہاہے ۔ آج ہم اس ملک خداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آزاد ہونے کی خوشیاں منارہے ہیں لیکن ایک بات جو یا درکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ آزادی کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ہر فرد اپنے نظریات اور جائز خواہشات کے مطابق زندگی کو بسر کرسکے بلکہ آزادی کا مقصد یہ بھی ہے کہ اس آزاد ملک میں رہتے ہوئے وہ شخص اس آزادی سمیت اپنے افکار و نظریات اور فلسفے کی حفاظت بھی کرسکے کیونکہ دنیا میں ہمارے سامنے بے شمار ایسے ممالک بھی موجود ہیں جو اپنی جدوجہد سے آزادتو ہوئے مگر اپنی لاپرواہیوں اور آزادی کی قدر نہ کرنے کے باعث ایک بار پھر سے بکھر گئے۔

خود ہم سلطنت عثمانیہ کی مثال دے سکتے ہیں جس کے عروج وزوال کی داستانیں بھری پڑی ہیں جو کبھی حکومت کرتے تو کبھی محکوم بھی رہے ،دنیا کے آزاد ملکوں کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہیں کہ جہاں اغیار ایک بار پھر سے قابض ہوتے رہے، دوسری جانب صرف آزادی ہی ضروری نہیں ہے بلکہ اپنے ملک کوآگے لیکر بڑھنا بھی بہت ضروری ہوتاہے اس تحریر میں جو دوسری اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی قوم کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر ڈالنے کے لیے اسے سب سے پہلے ایماندار اور مخلص قیادت کا میسر ہونا بہت ضروری ہے ایک ایسی قیادت جو حالات کی درست آگاہی کی معلومات رکھتی ہو،اس قیادت کا دماغ اس ملک کے خزانے کو خالی کرنے کی بجائے اس میں اضافے کی سوچ رکھتاہو،اس ملک کی تہتر سالہ تاریخ میں زیادہ تر اقتدار دو خاندانوں کے حصے میں رہا اور ان خاندانوں نے دل کھول کر نہ صر ف ملک کی بلکہ اس میں بسنے والی عوام کی بھی خوب درگت بنائی لیکن آج موجودہ حکومت میں جو عمران خان کی قیادت میں ہمیں حکمران ملاہے وہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر ایک خاص انعام ہے جو صرف یہ سوچ رکھتاہے کہ اس ملک کو ترقی کی ان منزلوں پر لیکر جانا ہے جس کا یہ حقدار ہے ،جو قیام پاکستان میں دی جانے والی قربانیوں کی قدر جانتاہے جو اس بات کو جانتاہے کہ آج ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آزاد فضا میں موجود ہیں۔

یہ آزادی بھی لاکھوں قربانیوں کی وجہ سے ہی ہمیں میسر آئی ہے اس آزادی کے پیچھے ہمارے آباد واجداد کاخون شامل ہیں اس آزادی کی کوشش میں خواتین کی آبروں کی داستانیں شامل ہیں اس آزادی کے پیچھے معصوم بچوں کا قتل عام چھپا ہے اور پاکستان کی آزادی ہمیں اپنی جانوں اور مال ومتاع کا نزرانہ دیکرہی نصیب ہوئی ہے۔ مگر اس آزادی کو قائم ودائم رکھنے میں جہاں ہماری باشعور قوم کا ایک بڑا ہاتھ ہے وہاں ہم سلام پیش کرتے ہیں اپنی افواج پاکستان کو جن کی وجہ سے دشمن کی مسلسل چالیں ناکام ہوتی چلی جار ہی ہے ہم سلام پیش کرتے ہیں اپنے فوجی جوانوں کو جو نہ صرف اپنے ملک کی حفاظت کررہے ہیں بلکہ یہ جوان کشمیر کی آزادی کے لیے بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔آج ایسی ہی ایک آزادی کی جنگ ہمارے کشمیری بہن بھائی لڑرہے ہیںکشمیر کے یہ باشعور لوگ ایک منٹ کے لیے بھی اللہ کے سوا کسی غیر مسلم کو سجدہ ریز ہونے کو تیار نہیں ہیں وہ صرف ایک اللہ کو مانتے ہوئے صرف اور صرف پاکستان کے ساتھ رہنے کی آرزو رکھتے ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ نریندرا مودی اور اس کے آرایس ایس کے غنڈے کشمیرمیں اور بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو کبھی زندہ جلارہے تو کبھی سڑکوں پر گولیوں سے بھون رہے ہیں اور مسلم بہن بیٹیوں کی آبروریزیاں کررہے ہیں جبکہ یہ بات اب کھل کر عیاں ہوچکی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندرامودی کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے بری طرح سے پھنس چکے ہیں ، یہ موجودہ وفاقی حکومت کی دن رات کی کاوششوں کا نتیجہ ہے کہ وہ پانچ اگست کے واقعہ کے بعد سے لیکر اب تک شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک بچا ہوجس میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کے کشمیر میں بہیمانہ کردار کو بے نقاب نہ کیاہو،پاکستان کے دونوں رہنمائوں کی جانب سے نریندر مودی کی ایسی کھل کر توازع اور بے عزتی کی جارہی ہے کہ یقینی طورپر کوئی غیرت مند ہوتا تو اب تک ڈوب کرمرگیا ہوتا،مگر حقیقت تو یہ ہے کہ مودی کی جارحانہ پالیسیوں کا محور اب دم توڑنے لگاہے کیونکہ کشمیریوں کی عظیم قربانیوں اور جدوجہد نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرلیاہے اور اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ کسی بھی قوم کا صبر بس ایک حد تک ہی آزمایا جاسکتاہے کشمیر کے لوگ ایک ایسے سخت اور مصیبت زدہ ماحول سے گزررہے ہیں کہ جس کا تصور بھی رونگھٹے کھڑے کردیتاہے اور اس سخت جافشانی کے بعد اب اہل کشمیر کے لوگوں کو مزید محکوم رکھنا ناممکن سا ہوگیاہے انہیں اب زیادہ دیر غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنا ناممکن ہوچکاہے جبکہ دوسری جانب پاکستان کی عوام میں کشمیری بہن بھائیوں کے لیے پایا جانے والا غم غصہ بھی اب برداشت سے باہر ہوچکا لہذا وہ دن اب دور نہیں رہا جب سری نگر ہماری منزل ہوگی اور کشمیر پاکستان کے نئے نقشے کے مطابق حقیقت کا روپ دھار چکاہوگا میرے ساتھ سب کہو آمین ۔ختم شد

Haleem Adil Sheikh

Haleem Adil Sheikh

تحریر : حلیم عادل شیخ
۔ ممبر سندھ اسمبلی ۔پارلیمانی لیڈر تحریک انصاف سندھ
۔ E:Mail.haleemadilsheikh@gmail.com