ایک اور گڈی

Innocent Girl

Innocent Girl

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

چند دن پہلے میں نے ”گُڈی ” نام کا کالم لکھ تو لیا لیکن اُس لڑکی کا کرب دکھ اور اُس معصوم پر ہونے والا ظلم تیز دھار خنجر کی طرح میرے جگر کو کاٹ رہا تھا بیچاری پر جس قدر بھیانک خوفناک ظلم جنسی تشدد ہوا نہ تو اُس بیچاری نے ساری تفصیل بتائی اور جو بتائی وہ سن کر کسی بھی شریف انسان کا دل پھٹ جائے اور نہ ہی میرے قلم میں اتنی ہمت تھی کہ اُس پر ہونے والے جنسی تشدد دھوکہ اور بلیک میلنگ کو لکھ سکے ۔کالم لکھتے وقت میں حد درجہ درد ناک کرب سے گزرا کہ میرے دل و دماغ کے ساتھ روح تک چھلنی ہو گئی۔

آج کئی دن گزر گئے لیکن معصوم گڈی کا چہرہ بار بار نظروں کے سامنے آکر اِس بے رحم بانجھ معاشرے اور اوباش جوانوں کی بد معاشی کہ بیان کرنا مشکل ایسے واقعات ہر روز پاکستان کے گلی محلوں میں ہوتے ہیں آپ اخبارات یا ٹی وی چینل دیکھیں تو روزانہ ہی بنتِ حوا پر ایسے مظالم ہوتے نظر آتے ہیں ایسے بہت سے واقعات یاد بھی آئے بہت سارے تو میں راز میں رکھ لیتا ہوں لکھنے کی جرات نہیں کرتا لیکن پھر اِس خیال سے کہ شاید کوئی اور لڑکی یہ پڑھ کر صراط مستقیم پر آجائے اُس کی زندگی اصلاح کی طرف آجائے لہذا میں سبق کے لیے لکھتا ہوں کالم لکھنا میرے جیسے مصروف بندے کے لیے بہت مشکل ہے لیکن جب کبھی میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کسی کی زندگی میں تبدیلی یا سدھار کا موجب بنتے ہیں تو پھر دوبارہ ہمت ہوتی ہے کہ یہ کام جاری رہنا چاہیے ایسے ہی کالم گڈی کے بعد ہوا کام کے دودن بعد مجھے ایک لڑکی کے بہت سارے میسیجز آتے ہیں کہ سر میں آپ سے کالم گڈی کے بارے میں بہت ضروری بات کرنا چاہتی ہوں پلیز جب آپ فری ہوں مُجھ سے رابطہ کریں۔

میں نے آپ سے تفصیلاً بات کرنی ہے میں جیسے ہی فری ہوا میں نے اُس بچی کو کال ملائی تو وہ بہت احترام اور مہذب انداز میں شائستگی کے لہجے میں بولی سر آپ میں آپ سے ایک سال پہلے مل چکی ہوں بلکہ میری آپ سے تین ملاقاتیں ہوئی تھیں اُن دنوں میں بھی گڈی کی طرح عشق و محبت کے سمندر میں غوطے کھا تی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ آپ کے پاس آئی تھی میں شدت سے اُس لڑکے کی محبت میں گرفتار تھی میرے گھر والے اِس شادی پر بلکل تیار نہیں تھے لیکن عشق کا انتہائی دورہ پڑا ہوا تھا مجھے اُس کے علاوہ دنیا میں کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا آپ کے پاس میں پہلی دفعہ آئی تھی جبکہ وہ لڑکا آپ کے پاس کبھی کبھار آتا رہتا تھا آپ اُس کے ماضی کے عشقوں سے اچھی طرح واقف تھے میں سرکاری نوکری کرتی تھی جبکہ لڑکا کاروباری تھا اُس کے پاس بہت سارا روپیہ شاندار گاڑیاں اور شہر میں اچھے علاقے میں خوبصورت مہنگا ترین گھر بھی تھا۔

دو سال سے یہ میرے پیچھے پڑا ہو اتھا مجھے طرح طرح کے خواب دکھا کر پوری طرح اپنے شیشے میں اتار چکا تھا شروع میں تو اِس کی باتوں میں نہیں آئی تھی لیکن یہ بہت مستقل مزاج اور ضدی تھا بلکہ عورتوں کو رام کرنے کے سارے گُر جانتا تھا اُن دنوں یہ میرے پیچھے پڑا ہوا تھا کہ اگر تمہارے والدین نہیں مانتے تو کوئی بات نہیں ہم کورٹ میں نکاح کر لیتے ہیں بچہ ہم اُس وقت پیدا کریں گے جب تھک ہار کر تمہارے والدین مان جائیں گے میں اِس بات پر راضی نہیں تھی تو یہ آپ کے پاس پہلے سے آتا تھا آپ سے بھی جھوٹ بولتا تھا جھوٹی عقیدت کا اظہار کرتا تھا آپ سے کہا کہ میں ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں لڑکی کنفیوژن کا شکار ہے آپ اُس کو میرے بارے میں کہہ دیں کہ میں اُس کے ساتھ مخلص ہوں پھر جب ہم دونوں آپ کے پاس آئے توآپ نے میری تاریخ پیدائش نام وغیرہ پوچھنے کے بعد کہا بیٹی کچھ مشکلات نظر آ رہی ہیں۔

آپ کل مجھے فون کرنا میں آپ کو بتائوں گا آپ نے کیا کرنا ہے پھر اگلے دن میں نے آپ کو کال کی تو آپ نے مُجھ سے پوچھا بیٹی آپ اِس کو کب سے جانتی ہوں تو میں نے ساری تفصیل آپ کو بتا دی تو آپ نے کہا بیٹی اِس وقت تم عشق کے بادلوں پر سوا ر ساتویں آسمان پر پرواز کر رہی ہو اِس وقت اگر میںکسی قسم کی نصیحت لیکچر تم کو دوں گا تو آپ میری کسی بات کو نہیں مانو گی بلکہ مجھے دشمن سمجھ کر میرے خلاف ہو جائو گی لیکن اگر میری بات پرکھنے کے بعد سچ ثابت ہو تو پھر تو میری بات غور سے سننی چاہیے تو میں بولی سر میںاِس لڑکے کو پچھلے کئی مہینوں سے جانتی ہوں میں نے اِس کے اندر کسی قسم کی کوئی خرابی نہیں دیکھی میںاِس کو اچھی طرح پرکھنے ٹٹولنے کے بعد آپ کے پا س آئی ہوں آپ دعادیں میں اِس سے کورٹ میرج کرنا چاہتی ہوں تو آپ نے مجھے کہا تم ضرور کرو لیکن تمہاری ساری زندگی پڑی ہے۔

میرے کہنے پر ایک ماہ شادی نہ کرو یہ اللہ کے نام ہیں اِن کا ورد کرو میں بھی اللہ تعالی سے دعا کروں گا کہ اگر اِس لڑکے میں کوئی خامی ہے تو وہ سامنے آ جائے دوسری بات میرے پاس وہ تم سے پہلے سے آتا ہے تو مجھے تو اُس کا ساتھ دینا چاہیے لیکن میں تم کو اپنی بیٹی سمجھ کر روک رہا ہوں تو میں بولی ٹھیک ہے سر میں یہ ورد کروں گی پھر ایک مہینے کے بعد اِس سے شادی کروں گی لیکن آپ ہار جائیں گے یہ لڑکا ٹھیک ثابت ہوگا پھر آپ اِس کے دوست سے ملے اُس کو خدا کا خوف دلایا کہ تمہاری بھی بہن بیٹی ہو گی کوئی شریف لڑکی اِس سے شادی کر نا چاہتی ہے اگر تم کچھ جانتے ہو تو ضرور بتائو تو اُس لڑکے نے آپ کو ایک ایڈریس دیا تھا کہ یہ اکثر اُس مکان میں جاتا ہے اصل حقیقت کا مجھے نہیں پتہ پھر آپ نے وہ ایڈریس مجھے دیا تو میں جب یہ دفتر ہو تا ہے اُس پتے پر گئی تو اِس کا اصل روپ سامنے آگیا وہاں پر اِس کی بیوی اور دو بچے رہ رہے تھے اُس عورت نے جب بتایا کہ میں اِس کی بیوی ہوں اور گائوں میں ایک اور بیوی بھی موجود ہے ہم دونوں بیویوں کے علاوہ یہ بہت ساری لڑکیوں کو جال میں پھنسا کر عیاشی کرتا ہے۔

گائوں والی بیگم کو اِس لیے نہیں چھوڑا وہ رشتے دار ہے مجھے اِس لیے نہیں کہ میں دولت مندہوں جبکہ کئی لڑکیوں کو نکاح کے بعد کچھ عرصہ عیاشی کر کے چھوڑ دیتا ہے پھر اُس عورت نے اپنی شادی گائوں والی شادی کی تصویریں دکھائی بہت ساری لڑکیوں سے تعلقات لڑائی جھگڑوں کی طویل فہرست سنائی تو میرے سر سے عشق کا بھوت اُترا میں شرمندگی کے مارے آپ کے پاس بھی دوبارہ نہیں آئی اِس کا نمبر اِس کے دوستوں کے سارے نمبر بلاک کردئیے اور والدین کے حکم پر جہاں انہوں نے کہا شادی کر لی آپ میرے لیے مسیحا بن کر آئے ہر نماز میں دعا کر تی ہوں آپ کے سارے کالم اور کتابیں پڑتی ہوں ہر سانس کے ساتھ دعائیں دیتی ہوں ہم لڑکیاں خوابوں کی دنیا میں خوابوں کے شہزادے بنا لیتی ہیں زمانے کا لوگوں کا بلکل اعتبار نہیں بلوغت کے آغاز کے ساتھ ہی والدین غیر جب کہ مخالف جنس کے جوان اپنے لگنا شروع ہو جاتے ہیں وہ والدین جنہوں نے اپنا خون پسینہ دے کر ہمیں پالا ہوتا ہے اُن کی عزت کو ٹھوکر مار کر اِن بد معاشوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوتی ہیں کاش ہر بیٹی اپنے والدین کی عزت کا خیال کر کے چار دیواری سے باہر نہ نکلے جہاں ہر طرف جنسی بھیڑیے تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں پھر بہت دعائوں اور شکرئیے کے ساتھ اُس نے فون بند کر دیا میں نے اللہ کا شکر کیا کہ ایک گُڈی عشق کے گھوڑے پر سوار ذلت کی وادی میں نہیں غرق ہوئی ہوش سے خود کو بربادی سے بچا لیا۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org