پاکستان کس ڈگر پر؟

Pakistan

Pakistan

تحریر : عقیل خان

پاکستان اس وقت لا تعداد مسائل سے دوچار ہے ہمارے سیاسی قائدین کی نااہلی اور بد عنوانیوں کی وجہ سے ملک دن بدن غربت اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا جا رہا ہے۔الیکشن سے پہلے تمام سیاستدان ملک کی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کے بلندو بانگ دعوے کرتے نظر آتے ہیںمگر اقتدار میں آتے ہی ملک تو ترقی کرتا نہیں مگر یہ خود ترقی کرجاتے ہیں۔موجودہ حالات کو دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ وقت کس رفتار سے چل رہا ہے اور ہم کس رفتار سے؟ انسانی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے۔کس پر اعتبار کریں اور کس پر نہ کریں۔پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا اس میں غیر اسلامی کام ایسے ہورہے ہیں جیسے کوئی گناہ نہیں۔ فحاشی کی بات کریں تو ہر روز اخبارات کے صفحے بدفعلی کے الفاظ سے بھرے ہوتے ہیں۔ کسی رشتہ ، محلے داری اور تعلق دار پر سے اعتبار کرنے کی گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے۔ کہیں پر چچا بھتیجی، کہیں سوتیلا باپ بیٹی، کہیں محلے کے لڑکے اور لڑکی اور تو اور لڑکے کے ساتھ بدفعلی کی نیوز سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کیا پاکستان اس لیے قائم ہوا تھا ؟ ہم تو بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان کا نا م اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور یہ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے بنایا گیا مگر اب جب پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ کیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی ہے؟ یہاں اسلامی کم اور شیطانی کام زیادہ ہورہے ہیں۔ ہم اپنے رب اور پیغمبر کے تابع کم اور شیطان کے تابع زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔

پاکستان میں کرپشن ختم کرنے کاموجودہ حکومت نے علم اٹھا یا ہوا ہے مگر افسوس کہ کرپشن ختم ہونے کی بجائے بڑھ زیادہ رہی ہے۔کونسا محکمہ ہے جہاں رشوت کا بازار گرم نہیں۔ اسلام میں رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہے مگر ہمارے موجودہ حالات میں تو جہنمی ہونے سے ڈرا بھی نہیں جارہا بلکہ کھلم کھلا آفر ہوجاتی ہے کہ اتنے پیسے دیں آپ کا کام ہوجائے گا۔میں کسی کی آپ بیتی نہیں بتا رہا بلکہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا بھی اور سنا بھی ہے۔ جائز کام کے لیے بھی ناجائز طریقہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ پیسے کی حوس نے انسان کو اندھا کرکے رکھ دیا ہے۔ موت کی پرواہ نہیں اور دنیا کی پرواہ ہے جس کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔

اگر ہم اداروں کی باتیں کریں تو وہاں سیٹ پر بیٹھے آفیسر اپنے آ پ کو ناخدا سمجھے ہوئے ہیں۔ پولیس تو بدنام تھی کہ ان کا عوام کے ساتھ رویہ اچھا نہیں ہوتا مگر اب توتقریباً ہر محکمے میںایسا ہی دکھائی دے رہا ہے جو عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔مجھے بذات خود کئی اداروں کے افسران بالا سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا مگر جب ان کا رویہ دیکھا تو مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیںہوا۔ پچھلے دنوں ایک ہسپتال کا وزٹ کیا تو وہاں پر ڈاکٹر حضرات پہلے تو مریضوں کی بجائے موبائل پر مصروف نظر آئے اور جب مریض چیک کرنے کی باری آئی تو ان کا رویہ ایسا تھا کہ جیسے وہ مریض چیک کرکے احسان کررہے ہیں۔ بہت سے مریضوں کو تو ایسے جھڑک رہے تھے جیسے اس نے اپنے مرض کے متعلق پوچھ کر کوئی کبیرہ گنا ہ کرلیا ہے۔ پہلے ن لیگ کے دور میں اگر ہسپتال میںجب مریض آتا تھا تو اس کا فون نمبر انداراج ہوتا تھا اور اس پر سرکاری ہسپتال کے عملے کے رویے اور ادوایات کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے سی ایم کی ہدایت پرمریض کے پاس کال بھی آتی تھی جس کا ہسپتال کے عملے کو ڈر ہوتا تھا کہ ہمارے خلاف کوئی ایکشن نہ ہومگر اب تو کھلی بدمعاشی ہوتی ہے۔

اسی طرح ایک ٹاؤن کمیٹی میں جانے کااتفاق ہوا تو وہاں پر موجود کمیٹی کے ملازم اپنی من مرضی سے عوام کا کام کررہے تھے کسی کو ٹرخایا جارہا تھا تو کسی سے پچاس روپے فیس کی مد میں ہزار روپے تک لیے جارہے تھے۔ برتھ سرٹیفکیٹ،نکاح نامہ کی فیس حکومت نے کیا رکھی ہوئی ہے اور وہاں پر جھوٹی کہانی سنا کرزائد پیسے بٹور کر اپنی جیب گرم کی جارہی تھی۔

ہمارے پی ایم صاحب نے ایک پورٹل سیٹیزن متعارف کرائی ہوئی ہے جس پر کمپلین درج کرائی جاسکتی ہے اور اس کا حکومتی سطح پر بڑا چرچا بھی کیا جارہا ہے مگر افسوس کہ یہ پورٹل سیٹیزن محض ایک خانہ پوری ہے۔ میں نے بذات خود کئی کمپلین درج کرائی مگر آج تک جس محکمے کے خلاف کمپلین درج کرائی اس کے بارے میں کوئی کال یا پوچھ گچھ مجھ سے نہیں کی گئی بلکہ خود ہی فیصلہ کرکے آن لائن جواب دے دیا اور اس میں سارے فیصلے اس محکمے کے حق میں ہوتے ہیں جس کے خلاف درخواست کی۔ حال ہی میں ایک درخواست این ایچ اے کے ٹھیکے کے خلاف کی جہاں را میٹریل استعمال کیا جارہا تھا اور وہ ٹھیکہ مکمل ہونے کو ہوگا مگر اس پر کوئی خاص ایکشن ابھی تک نہیں ہوا۔ جب کہ پورٹل سیٹیزن پر درخواست کرنے کے بعد 48دن کا ٹائم لکھ کر آتا اور ادھر کئی ماہ گزر جاتے ہیں مگر درخواست پڑی ہوتی ہے۔ ایک درخواست یکم اکتوبر کو کی جو تاحال چل رہی ہے اور ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔

حکومت پاکستان اگر ملک کو کرپشن سے پاک کرنا چاہتی ہے تو ان کو پہلے نچلی سطح پر دیکھنا ہوگا جہاں غریب کوچند سو روپے رشوت کے طور پر دینا عذاب نظرآتا ہے۔ ہمارے وزراء اکثر اپنے اپنے محکموں کی تعریف کرتے نظرآتے ہیں کہ ہم نے اپنے اداروں سے کرپشن ختم کردی مگر وہ جوں کی توں ہے۔ ریلوے کو دیکھ لو کوئی بھی مسافر ریلوے پولیس یا ریلوے کے عملے کی جیب گرم کرکے اپنا سفر مکمل کرسکتا ہے جبکہ اس کو ٹکٹ تک نہیں دیا جاتا۔سوئی گیس میں بل تقسیم کرنے کے لیے ٹھیکہ پر بندے رکھے ہوئیں مگر ان کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ چند گھروں میں بل دیکر باقی کسی ہوٹل، چوراہے پر رکھ کر غائب ہوجاتے ہیں میں نے بذات خود ان کے خلاف پورٹل سیٹیزن پر درخواست دی مگر اس کا اینڈ یہ ہوا کہ ٹھیکہ دار کی گارنٹی پر درخواست بندکردی گئی مگر بل آج بھی ہمیں مختلف دکانوں اور چوراہوں سے تلاش کرکے لانا پڑ رہے ہیں اور ہمارے حکمران کہتے ہیں پورٹل سیٹیزن پر درخواست دینے سے کرپٹ لوگوں کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے۔شہروںاور دیہاتوںمیں گٹر لائن بن ہوجائے تو کمیٹی ملازمین کوگٹرکھلوانے کے لیے بھی بطور رشوت جیت گرم کرنا پڑتی ہے۔

پاکستان کی ترقی کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ کرپشن کی دیمک ہمارے ملک کو کس طرح چاٹ رہی ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے ملک کی بقا کے لیے متحد ہوکر کرپشن کے خلاف لڑنا ہوگابشرطیکہ کرپٹ بندے کے نشاندہی ہونے پر ادارے اس کے خلاف بھرپورا یکشن لیں اور اس کو ایسی سزاد یں کہ دوبارہ کوئی اور ایسی حرکت نہ کرسکے ناکہ اس کی طرف داری کرکے اسکی حوصلہ افزائی کریں۔

Aqeel Khan

Aqeel Khan

تحریر : عقیل خان