پاکستان نے سال ٢٠١٩ء میں کیا پایا، کیا کھویا

Pakistan

Pakistan

تحریر : میر افسر امان

مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان، مثل مدینہ ریاست نے سال ٢٠١٩ء میں کیا پایا اور کیا کھویا پر لکھنے سے پہلے کچھ واقعات بیان کر دیں تو بات سمجھنے میں آسانی ہو گی۔پہلی بات کہ ہم پاکستان کومثل مدینہ ریاست ہم اس لیے کہتے ہیں کہ یہ بر عظیم کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ ہے۔اللہ حی ا لقیوم ،زندہ جاوید ہستی ہے۔ ہندوستان ،جس میں مکہ کی طرح بت پرست کافر رہتے ہیں ان سے آزادی کے لیے، قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اللہ کے سامنے یہ وعدہ کیا گیا تھاکہ جب اللہ، تو ہمیں پاکستان عطا کرے گا، ہم اس میں تیرے نام کا بول بھالا کریں گے۔یعنی جب برعظیم کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں بت پرست ہنددئوں اور مکار انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے، پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الا اللہ” کا اللہ سے وعدہ کیا تو اللہ نے مسلمانان بر عظیم کو پاکستان تشتری میں رکھ کر پیش کر دیا۔اگر با اقتدار حلقے پاکستان میں ”لا الہ الا اللہ” کے تحت مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست کا نظام قائم کر دیتے ۔ تو قرآن شریف کے فرمان ہے” کہ اگر بستیوں کے لوگ اللہ کے احکامات پر چلتے تو اللہ آسمان سے رزق نازل کرتا اور زمین اپنے اندر کے خزانے اُگل دیتی” مگر ہم نے اللہ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا ۔پھر اللہ نے ہمیں سزا دی۔ اگر ہم اللہ سے کیا ہواوعدہ پورا کرتے تو بت پرست بھارت نہ پاکستان کے دو ٹکڑے کر سکتا تھا اور نہ ہی اب مذید دس ٹکڑے کرنے کی دھمکی دیتا۔پاکستان، بھارت کے مسلمانوں کا پشتی بان ہوتا۔کشمیر ہم سے نہ چھنتی۔ پاکستان مسلم دنیا کا لیڈر بنتا۔ پاکستان ساری دنیا کا ایک جدید ترقی یافتہ ملک ہوتا۔

جہاں تک بھارت سے آزادی کا تعلق ہے ہندوستان کے مسلمان ہندوئوں کے مشرکانہ رسوم و رواج سے تنگ تھے۔ ہندو مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے ” گھر واپسی اورو دھیا مندر اسکیم وغیرہ جیسی تحریکیں چلاکرمسلمانوں کوہندو بنانے کوششیں کر رہے تھے۔ دوسرا انگریز برعظیم کا اقتدار ہندوئوں کو دے کر جانے کی سوچ رہے تھے۔ آل انڈیا کانگریس مسلمانوں کو عددی اکژیت سے ہمیشہ کے غلام بنانے کی پلائنگ کر رہے تھے۔انگریزوں نے مسلمانوں سے اقتدار حاصل کیا تھا۔ اصولاً تو اقتدار مسلمانوں کے ہینڈ اور کرنا چاہیے تھا ۔ مگرانگریزوں کو مسلمانوں سے دشمنی تھی۔ کیونکہ مسلمانوں نے ا نگریزوں سے روما کی سلطنتیں چھین کر اسلام کا جھنڈا لہریا تھا۔اس لیے انگریز مسلمانوں سے خوف زدہ تھے ،کہ کہیں دوبارہ ان سے مسلمان اقتدار چھین نہ لیں۔ اس لیے مسلمانوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ہی ان کو دبا کر رکھنا کی پالیسی پر گامزن رہے۔ جب شروع میں فرانس نے ہندوستان کے ساحلوں پر قبضہ کیا تو شاہ فرانس نے یہ فرمان جاری کیا تھا کہ موروں(مسلمانوں) کو مارو اور ہندوئوں کو سرکاری نوکریاں دو۔فرانسیسی اور انگریز ہندوستان پر غلبے کے لیے آپس میں ١٠٠ سال تک لڑتے رہے اور پھر انگریز فرانسیسیوں پر غالب آکر ہندوستان کے مالک بن بیٹھے۔انگریزمسلمانوں سے اچھی طرح واقف تھے کہ مسلمانوں نے اُن سے اقتدار چھینا تھا۔

انگریز قوم مسلمانوں کے جذبہ جہاد فی سبیل اللہ کی وجہ سے خوف میں مبتلا تھا۔ برطانیہ کے دانشور نے اپنی حکومت کو ایک خط کے ذریعے مسلمانوں کے بارے مشورہ دیا تھا کہ مسلمان پیروں،فقیروں، مزاروں اور روحانیت کے زیادہ دلدادہ ہیں۔اس لیے ان میں جعلی زللی نبوت پیدا کی جائے۔(یہ خط برطانیہ کی آل انڈیا آفس لائبربیری ) میں اب بھی موجود ہے۔یہ جعلی نبوت جب زور پکڑ جائے تو وہ مسلمانوں میں جذبہ جہاد ختم کر کے اسے دوسرے مشاغل میں مصروف کر دیا جائے۔ اس کام کے لیے انہیں اپنے پرانے خادم خاندان کے چشم و چراغ مرزا غلام محمد قادیانی ملا۔مرزا قادیانی نے برطانیہ کو خط لکھا تھا کہ میرے والد نے ١٨٥٧ء کی جنگ آزادی میں انگریزوںکی مدد کے لیے پچاس(٥٠) مع کھوڑو سواروں کے ساتھ مدد کی تھی۔ میرے والد کا کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو مذید سو(١٠٠) کھوڑوںمع سواروں کے مدد کروں گا(رسالہ سستارہ قیصرہ۔ ازمرزا غلام احمدصفحہ ٣) مرزا غلام محمدقادیانی نے مختلف روپ ڈھال کر بلا آخر زللی نبوت کا اعلان کر دیا۔ یہ بھی خرافات بکیں کہ جو میری نبوت کو جو نہیںمانتے وہ رنڈیوں کی اُولاد ہیں۔(حوالہ آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ ٥٤٧۔٥٤٨)صرف قادیانی مسلمان ہیں باقی سارے مسلمان کافر ہیں(حوالہ۔کلمتہ الفضل صفحہ ١١٠) حضرت عیسیٰ کی شان میںنازیبا الفاظ استعمال کیے۔سلطنت برطانیہ کو خط ذریعے اطلاع دی کہ میں نے مسلمانوں میں سے جہاد فی سبیل کا فریضہ ختم کروا دیا ہے۔ جہادکے ختم ہونے کے متعلق اپنے لٹریچرز سے برعظیم کی لائبریریاںبھر دی ہیں۔(حوالہ رسالہ ستارہ قیصرہ از مرز غلام محمد قادیانی صفحہ٤)

انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں قادیانیوں کو خوب نوازا، سرکاری محکموں میں آگے آگے رکھا ۔ اب بھی قادیانیوں کی ہر طرح سے مدد کر رہے ہیں۔امریکہ سینیٹ کی خارجہ کمیٹی نے پاکستان کو امداد کے لیے یہ شرط رکھی کہ:۔” امریکی صدر ہر سال اس مفہوم کا ایک سرٹیفکیٹ جاری کرے گا کہ حکومت پاکستان اقلیتوں ،مثلاً احمدیوں کو مکمل شہری اور مذہبی آزادیاں نہ دینے کی روش سے باز آرہی ہے اور ایسی تمام سرگرمیاں ختم کر رہی ہے جومذہبی آزادایاں پر قد غن عائد کرتی ہیں(مضمون ارشادحقانی جنگ ٥ مئی ١٩٨٧ء )پاکستان بننے کے بعد سر ظفراللہ چوہدری پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ بنا، بھٹو کے دور میں پاکستان کی ہوائی فوج کا سربراہ ظفر چوہدری، جن نے ربوہ میں قادیانیوں کے جلسہ پر اپنے تین پائلٹوں کے ساتھ نیچی پرواز کر کے پھولوں پتیاں نچھاور کی تھیں۔بری فوج کا سیکنڈ ان کمان اور بحری فوج کا سربراہ قادیانی تھا۔ یہ سب انگریزوں کے ہاں تربیت کے دوران جعلی طور پر اعزازات حاصل کر پاکستان کی فوج میں اعلیٰ رینکوں پر پہنچے تھے۔ اسی طرح پاکستان کی بیروکریسی میں بھی متعدد قادیانی اعلی عہدوں پر تعینات رہے جو قادیانیت کا پر چار اور پاکستان کو نقصان پہنچاتے رہے۔

اب بھی صلیبیوں اور یہودیوں کے زیر اثر بین الاقوامی مالیاتی ادارے جس میںورلڈ بنک اور آئی ایم ایف ۔ جب پاکستان کو قرضے دیتے ہیں توپاکستان میں قادیانیوں کو عہدے دلاتے ہیں۔ جیسے عمران خان نے ایک قادیانی کو امریکا کا سفیر بنایا۔جیسے نواز شریف نے آخری دور میں ووٹر لسٹ سے قادیانیوں کے بارے حلف نامے کو بڑی چالاکی سے تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ عوام کے شدید احتجاج کے بعدناکامی ہوئی اور وزیر قانون کو برطرف بھی کیا۔

امریکا بہادر جس کے ساتھ پاکستان بننے کے بعد سے دوستی چلی آ رہی ہے۔جس کے متعلق مشہور ہے کہ امریکا کی دوستی اچھی نہ دشمنی۔ امریکا گو کہ پاکستان کو امداد دی مگر اس کے بدلے پاکستان نے اپنے وجود کو بھی دائو پر لگا یا۔ سویٹ یونین کے خلاف پشاور بڈھ بیر کی ہوائی پٹی سے امریکا نے جاسوس جہازیو ٹو اُڑایا جسے سویٹ یونین نے مار گرایا اور پشاور کو ریڈ نشان لگایا۔ سویٹ یونین نے پاکستان کے ٹوٹنے کے وقت بھارت سے دفاحی معاہدہ کیا۔ اس پر عمل کرتے ہوئے ١٩٧١ء کی پاک بھارت جنگ میں ایٹمی کشتیوں سے بھارت کی مددکرتے ہوئے پاکستان کے بحری بیڑے کو محاصرے میں دبائے رکھا۔جبکہ پاکستان امریکا کے ساتھ سیٹو اور سینٹو معاہدے میں تھا۔امریکا نے کہا کہ پاکستان کی مدد کے لیے امریکا کاچھٹا بحری بیڑے آرہا ہے۔ مگر پاکستان ٹوٹ گیا اور یہ بیڑا ہماری مدد کو نہ پہنچا سکا۔

پاکستان بننے کے بعد قادیانیوں اور کیمونسٹوں نے سویٹ یونین کی مدد سے فوج انقلاب لانے کی سازش کی جس میں مشہور شاعر فیض احمد فیض بھی شامل تھا۔ سویٹ یونین نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کر دیں۔ پاکستان نے امریکا کے سر د جنگ کے دور کے دشمن سویت یونین کو افغانستان سے نکالنے میںمدد کی ۔ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور پاکستان کی مدد سے بنا۔ امریکا افغانستان کو تورا بورا بنانے کے باوجود شکست کھا چکا۔ فیس سیونگ کے لیے پاکستان سے مدد مانگ رہا ہے۔ پاکستان طالبان سے درخواست کر کے مذاکرات کرا رہا ہے۔پاکستان سے دوستی کے باوجود امریکا نے بھارت سے دفاحی معاہدہ کیا۔ بھارت کی ہاں میںہاں ملاتا ہے۔

افغانستان بھارت سے مل کر پاکستان مخالف اشرف غنی قوم پرست حکومت بنائی۔ بھارت، اسرائیل ،افغانستان اور امریکا سب مل کر پاکستان میں دہشت گردی کرائی۔ یہ اللہ کا فضل ہے کہ ہمارے بہادر فوج نے اس دہشت گردی کو کنٹرول کیا۔سب سے بڑی بات کہ امریکا نے ١١٩ کا خود ساختہ واقعہ کروا کے یہودی میڈیا کے ذریعے دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند ثابت کیا۔بھارت نے کراچی میں دہشت گرد الطاف کے ذریعے پاکستان کومعاشی طور پر تباہ کیا۔بھارت نے موقعہ پا کر پاکستان پر ہوائی حملہ کر دیا گو کہ منہ کی کھائی۔پھرپاکستان کی شہ رگ کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کر کے اسے بھارت میں ضم کر لیا۔اب بھارت کے کروڑوںمسلمانوں کی شہرت کو منسوخ کر کے ان کو حراستی کیمپوں میں رکھنے کے لیے قانون سازی کی۔

پاکستانیوں یاد رکھو، اسلامی اور ایٹمی پاکستان بھارت، اسرائیل اور امریکا کو قطعاً پسند نہیں۔ گریٹ گیم کے کارندے پاکستان کو ہر حال میں ختم کرنا چاہتے ہیں۔اگر پاکستان نے اپنے وجود باقی رکھنا ہے تو ملک میں اللہ سے وعدے کے مطابق اسلامی نظام ِحکومت قائم کرنی چاہیے۔ بھارت پاکستان توڑ کر اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا ہے۔ اسے باور کرنا چاہیے کہ اگر پاکستان نہیں تو پھر تم بھی نہیں۔اپنی شہ رگ کشمیر کی عملی مدد کرنی چاہیے۔ ترکی ،ملائیشیا ، ایران اور دوسرے اسلامی ملکوں کو ملا کر اپنی کرنسی اور معاشی منڈی بناکر آپس میںتجارت کو فروغ دینا چاہیے۔٥٧ اسلامی ملکوں کی ”مسلم اقوام متحدہ” بنانی چاہیے۔

صاحبو!ان حالات میں پاکستان دشمنوں کے نرغے میں ہمیشہ سے رہا ہے اور اب بھی ہے۔ ہم تو یہ کہیں گے کہ اللہ کافضل ہے کہ پاکستان نے اپنا وجود کو باقی رکھا۔ پاکستان نے یہی کچھ ،٢٠١٩ء میں کھویا اور پایا۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان