پاکستانی ڈاکٹرز کو نکالنے کا سعودی فیصلہ تنقید کی زد میں

Mohammed bin Salman

Mohammed bin Salman

اسلام آباد (جیوڈیسک) سعودی حکومت کی طرف سے پاکستانی ڈاکٹروں کو نکالے جانے کی خبروں نے پاکستان میں کئی حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ناقدین اس فیصلے پر کڑی تنقید کر رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس مسئلے کا فوری نوٹس لے۔
ریاض حکومت کے اس فیصلے کے بعد کئی حلقے پاکستانیوں کے حوالے سے سعودی عرب کی مجموعی پالیسی پر بھی تنقید کر رہے ہیں، جو ان کی نظر میں پاکستانیوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔

رپورٹس کے مطابق سعودی حکومت نے ایسے پاکستانی ڈاکٹروں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، جن کے پاس ماسٹر آف سرجری اور ڈاکٹر آف میڈیسن کی ڈگریاں ہیں۔ پاکستان میں میڈیکل کمیونٹی کے حلقوں کا کہنا ہے کہ سعودی وزارت صحت کے خیال میں ایسے ڈاکٹرز حضرات کے پاس خاطر خواہ تجربہ اور تربیت نہیں ہوتی۔ ان میں سے زیادہ تر ڈاکٹر کو دوہزار سولہ میں بھرتی کیا گیا تھا، جس کے لیے سعودی حکام نے پاکستان کے مختلف شہروں میں انٹرویوز لیے تھے۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اسی طرز کی ڈگری رکھنے والے بھارتی، بنگلہ دیشی، سوڈانی اور مصری ڈاکٹروں کو سعودی حکومت نہیں نکال رہی، جس سے کئی حلقوں میں تاثر پیدا ہوگیا ہے کہ یہ معاملہ خالصتاﹰ انتظامی ہے یا اس کے کوئی سیاسی محرکات بھی ہیں۔

سعودی عرب میں پاکستانی ڈاکٹرژ کے علاوہ لاکھوں پاکستانی مزدور بھی گزشتہ کئی دہا ئیوں سے محنت و مزدوری کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ناقدین کا دعوی ہے کہ نواز شریف کے دور حکومت میں پاکستان کی طرف سے یمن کے مسئلے پر سعودی حکومت کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر ہزاروں پاکستانی مزدروں کو نکالا گیا اور بچ جانے والے محنت کشوں کے لیے بھی قوانین سخت کر دیے گئے ہیں۔

تو آخر سعودی عرب ایسا کیوں کر رہا ہے؟ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سرجن نے، جو شہر کے ایک نجی میڈیکل کالج میں پروفیسر ہیں اور سعودی عرب میں پانچ برس کام بھی کر چکے ہیں، نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”سعودی عرب میں قوم پرستی بہت بڑھ رہی ہے۔ اب سعودی حکومت تمام امور میں سعودی شہریوں کو ترجیح دے رہی ہے۔ کاروبار میں حوصلہ افزائی کے بعد، اب مختلف پیشوں میں بھی سعودی شہریوں کو ترجیح دی جارہی ہے۔ پاکستانی ڈاکٹروں کو نکالنا بھی اسی سعودی پالیسی کا عکاس ہے۔ میرا خیال ہے کہ چھ سات سال میں وہ تمام پاکستانی ڈاکٹروں کو نکال دیں گے۔‘‘

میڈیکل کمیونٹی میں یہ خبریں گرم ہیں کہ ماسٹر آف سرجری اور ڈاکٹر آف میڈیسن کی ڈگریاں سعودی اسٹینڈرڈ کے مطابق نہیں ہیں۔ تاہم یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ڈاکٹر آف سرجری اور ڈاکٹر آف میڈیسن کی ڈگریاں کم تر ہیں۔ درحقیقت ان ڈگریوں میں دوسری ڈگریوں کی نسبت زیادہ محنت لگتی ہے۔ ان ڈگری کے حامل ڈاکٹر‍ز انتہائی قابل ہیں اور دنیا بھر میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان ڈینٹل ایند میڈیکل کونسل نے بھی اس کے اسٹینڈرڈ کو تسلیم کیا ہے۔‘‘

شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔

ایک اندازے کے مطابق دو ہزار سے زائد پاکستانی ڈاکٹرز سعودی عرب میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں، جس میں سے تین سو سے زائد کے پاس ماسٹر آف سرجری اور ڈاکٹر آف میڈیسن کی ڈگریاں ہیں۔ یہ ڈاکٹرز سعودی عرب میں بہت اچھے معاوضے کے عوض کام کر رہے ہیں۔ انہیں نکالنے کے سعودی فیصلے سے نہ صرف ان کے گھرانے متاثر ہوں گے بلکہ پاکستان کے زر مبادلہ پر بھی اثر پڑے گا، جو بہت زیادہ تو نہیں ہوگا لیکن ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر ایک ایک ڈالر ملکی خزانے کے لیے اہم ہے۔

کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ خالصتاﹰ انتظامی معاملہ ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں یہ مسئلہ پاکستان کے دو اداروں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ احسن رضا کے مطابق، ”ہمارے ہاں کچھ ادارے ماسٹر آف سرجری اور ڈاکٹر آف میڈیسن کی ڈگریاں کرا رہے ہیں جب کہ کچھ ایف سی پی ایس کی ڈگریاں کرا رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی ڈگریوں میں اسٹرکچرڈ ٹریننگ کی کمی ہے اور وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس مسئلے کو متعلقہ کمیٹی کے سپرد بھی کیا ہے۔ تو یہ دو اداروں اور ان کے ذیلی اداروں کے درمیان کشمکش کا مسئلہ ہے۔‘‘

تاہم کالج آف فزیشن اینڈ سرجن پاکستان کے سیکریڑی پروفیسر ارشاد وحید نے انگریزی روزنامہ ڈان کو لکھے گئے ایک خط میں، جس کی ایک کاپی ڈی ڈبلیو کے پاس بھی ہے، اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ ان کا ادارہ کسی بھی ڈگری کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ کہ سی پی ایس پی ایسی ڈگریوں کے خلاف کوئی مہم چلا رہی ہے۔

تاہم کئی سیاست دان اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ سیاست دان اور سابق وزیر برائے جہاز رانی و بندرگاہ سینیڑ حاصل بزنجو کے خیال میں یہ پہلا موقع نہیں کہ سعودی حکومت نے پاکستانی شہریوں کے لیے مشکلات کھڑی کی ہیں۔ ان کے مطابق، ”ایسا الگتا ہے کہ وہ ہم سے کچھ اور معاملات میں کچھ برسوں سے ناراض ہیں۔ پہلے انہوں نے پاکستانی مزدوروں کے لیے مسائل کھڑے کیے اور اب ڈاکرز پریشان ہیں۔ میرے علاقے میں کئی ایسے لوگ ہیں جو ستر سال سے سعودی عرب میں خاندان سمیت رہے رہے تھے اور اب ان مشکلات کی وجہ سے وہ واپس آ گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ڈاکٹرز کی ڈگریاں اچانک کم تر کیسے ہوگئیں جب کہ ڈاکٹر شیر شاہ سمیت کئی نامی گرامی ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ یہ ڈگریاں بین الاقوامی اسٹینڈرڈ کے مطابق ہیں۔ تو یہ صرف ایک بہانہ ہے پاکستانیوں کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کا۔ پاکستانی مزدوروں کے ساتھ ڈگری کا مسئلہ نہیں تھا لیکن پھر بھی انہیں ہزاروں کی تعداد میں نکالا گیا۔ حکومت کو اس معاملے کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔‘‘

عوامی ورکرز پارٹی کے ترجمان فاروق طارق نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے بتایا، ”میرے خیال میں یہ ایک سیاسی انتقام ہے، جس میں سعودی اور مشرق وسطی کی دوسری عرب ریاستیں ملوث ہیں۔ ماسٹرآف سرجری اور ڈاکٹر آف میڈیسن کے حامل ڈاکٹرز پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں ٹریننگ کرتے ہیں تو یہ ایک بہانہ ہے۔ یہ پاکستانی ڈاکٹرز کے خلاف امتیازی فیصلہ ہے اور حکومت کو فوری طور پر اس کا نوٹس لینا چاہیے۔‘‘