ایک پاکستانی مسلمان

Jamaat-e-Islami

Jamaat-e-Islami

تحریر : میر افسر امان

میں ایک پاکستانی مسلمان ہوں۔ افغانستان پر روسی قبضہ کے وقت اس پاکستانی کی ذمہ داری اس کی پارٹی جماعت اسلامی کی طرف سے کراچی کی ایک بستی کے ناظم کی تھی۔ جب افغانیوں نے روس کو شکست دینے کے بعد روس کی با قیات،افغانستان کی کٹ پتلی حکمران نجیب اللہ حکومت کو شکست دے کرکابل فتح کیا تھا۔ تو اس پاکستانی نے اس فتح کی خوشی میں ایک ایک ایک لڈے ایک ایک لفافحہ میں ڈال کر اس بستی کے بازار میں تقسیم کیا تھا۔ وہ اس لیے کہ ہمارے ایک پڑوسی اسلامی ملک افغانستان نے مذہب بیزار روس کی ظالم اور سفاک فوجوں کو شکست دے کر اپنے ملک افغانستان سے نکالا تھا۔ اپنے ملک میں امارت اسلامی قائم کی تھی ۔پاکستان کی مغربی سرحد تاریخ میں پہلی دفعہ محفوط ہو گئی تھی۔ اب امریکا بھی فاقہ مست افغان طالبان سے جہاد کی برکت سے شکست کھا کر افغانستان سے نکل گیا ہے۔ جب جب خبریں آ رہی ہیں کہ طالبان نے امریکی کٹ پتلی اشرف غنی حکومت کی فوجوں کو شکست دے کریہ جگہ فتح کرلی، وہ جگہ فتح کر لی۔ اس پاکستانی کا دل خوشیاں مناتا رہتا ہے۔ انتظار کر رہا ہے کہ کب کابل ایک بار پھر فتح ہوتاہے۔ اس پاکستانی کی پارٹی جماعت اسلامی ملک گیر فتح کا جشن منانے کا کب اعلان اور ساتھ ہی ساتھ امت مسلمہ کو بھی جشن منانے کی درخواست کرتی ہے۔

یہ تو طے ہے کہ امریکا کے خوف سے پاکستانی اور دیگر پٹھو مسلمان حکمران یہ کام کبھی بھی نہیں کریں؟ ان کے ڈالرائزڈ میڈیا کو بھی سانپ نے سونگ لیا ہے۔ مگر اسلامی دنیا کے عوام ضرور خوشی منائیں گے۔اس پاکستانی کا دل کڑ رہا ہے کہ یہ بات جماعت اسلامی کے علاوہ پاکستان کی دوسری جماعتوں کی سمجھ کیوں نہیں آرہی؟کیا یہ اسلام کی فتح نہیں ہے؟کیا یہ ان اپنی کی فتح نہیں ہے؟ کیا وہ یہ نہیں محسوس کرتے کے ان کا دشمن جب کوئی تھوڑی سے بھی کامیابی حاصل کرتا ہے تو اس کا دجالی میں میڈیا آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے۔کیا یہ مسلمانوں کی عظیم فتح نہیں؟ کیا جس جہاد کو مسلمانوں سے ختم کرنے کی صلیبی ایڑی چوٹی کا زور لگاتی رہے ہیں ۔ اس جہاد فی سبیل اللہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے صلیبیوں کو افغانستان میں شکست فاش دی ہے۔ فاقہ مست افغان طالبان کو فتح نصیب فرمائی ہے۔کیا اللہ تعالی ٰ کی یہ بات ثابت نہیں ہو گئی کہ وہ کمزروں کو جابروں پر فتح عطا فرماتا ہے؟ کیا یہ اسلام کی نشاة ثانیہ کی ابتدا نہیں؟

جناب !افغانستان میں طالبان نے تو فی الحقیقت یورپ اور امریکا کے صلیبیوں کو شکست دی ہے۔کیا بش ،جس نے نائین الیون(١١٩) کے جعلی خود ساختہ واقعہ کے بعد نہیں کہا تھا کہ اُس نے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ چھیڑ دی ہے؟مسلمانوں! کان کھولے اور سنوں یہ جہاد کا ثمرہ ہے۔ اسی جہادسے ہی مسلمان پھر سر اُٹھا کر دنیا میں جی سکتے ہیں۔ یہی کشمیر، فلسطین اور دنیا میں مسلمانوں کی آزادی کا حل ہے۔اگر ہماری بات سمجھ نہیں آتی تو اپنے ازلی دشمن بھارت کی میڈیا کا واویلا ہی سن لو۔کیا یورپ امریکا پر مشتمل نیٹو اتحادی اڑتالیس(٤٨) ملکوں کی فوجیں ایک مسلمان غریب ملک افغانستان کی اسلامی امارت کو ختم کرنے کے لیے نہیں چڑھ دوڑی تھی؟کیا اس سے قبل جب ١٩٢٣ء میں جب صلیبیوں نے مسلمانوں کی خلافت عثمانیہ کو ختم کر کے ،کئی راجوڑوں میںبانٹ کر، برطانیہ کے وزیر دفاع نے ،نہیں کہا تھا کہ اب دنیا میںمسلمانوں کو کہیں بھی اسلامی حکومت قائم نہیںکرنے دیں گے ؟کیا بش نے صلیبی جنگ نہیں چھڑی تھی ۔بش اب اپنی فوجوں کی واپسی پرچیں بجیں نہیں ہو رہا؟

اس پاکستانی کی ا مت مسلمہ سے محبت اس لیے ہے کہ اس پاکستانی کی جماعت اسلامی نے اسے اللہ ،رسول ۖ، آخرت ، مدینہ کی اسلامی ریاست، خلفائے راشدین کی اسلامی ریاست ، مسلمانوں کی دنیا پر تیرا(١٣) سو سالہ شاندار دورحکومت اور اللہ کی زمین پر اللہ کا کلمہ بلند کرنے، جسے اِس کے امیر سید ابوا لااعلیٰ مودودی نے حکومت الہیہ کہتے ہیں۔ ان ہی تعلیمات سے آراستہ کیا۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ جہاں بھی مسلمانوں کو کسی قسم کی تکلیف پہنچتی ہے ان کے غم میں شریک ہونے کی عادت ڈالی۔ یہ پاکستانی ٥ فروری یوم کشمیر کے علاوہ کشمیر پر بھارتی مظالم پر احتجاجی ریلیوں ،و ڈیو پروگرام اور مذاکروں میں شریک ہوتا رہا۔ کشمیر سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے حریت کانفرنس کے لیڈروں کے تعارفی پروگرام میں شرکت کرتا رہا۔ کبھی چیچینیا کے مسلمانوں پر روسی مظالم کے لیے احتجاجی ریلیوں میں شرکت کرتا رہا۔ کبھی ذیلم خان چیچینیا کے صدرکے پاکستان میں تعارفی پروگرام شریک ہوا۔کبھی بوسنیا پر سربیا کے عیسائی جلادوں کے خلاف احتجاجی پروگرام میں شریک ہوا ۔کبھی بوسنیا کی سفیر ساجدہ سلاجک کے متعارف کرانے کے پروگرام میں شریک ہوا۔ کبھی برما میں ہنسا کے پجاری مسلمانوںکے قصائی بدھووں اور برما کی فوج کے مظالم کے خلاف ریلیوں اور ان کی امداد ی کیمپوں میں شریک رہا۔ کبھی بنگلہ دیش نا منطور تحریک

کاحصہ بنا۔کبھی لیبیا میں دشمن کے مظالم کے خلاف شریک پروگرام رہا۔ کبھی عراق کے کویت پر امریکا کی ایما پر حملہ کے خلاف قائم کیمپوں میں بیٹھ کر امریکا کی سازشوں سے پاکستانی عوام کو مطلع کرتا رہا۔ کبھی افغانستان پر روسی قبضہ کے خلاف اُٹھا۔ جہاد پر جانے والے جہادیوں کے افغانستان سے واپسی پر ان کے جہاد کے بارے تجربات پر مبنی پروگراموں میں شریک ہوا۔ وحشی روس نے افغانستان میں ہلتی ہوئی ہر چیز پر بماری کی، کہ اس میںکہیں افغان جہادی چھپے ہوئے ہیں۔ افغانستان پر امریکا کے ٤٨ نیٹو اتحادیوں کی یلغار کے خلاف پروگراموں میں شریک رہا ۔ یعنی سارے جہاں کا درد اسی پاکستانی کے دل میں ہیں۔ امریکا نے افغانستان میں اپنے جدید ترین مہلک ہتھیار جن میں ڈیزی کٹر بم جو پہاڑوں کو ریز اریزا کر دیتے ہیں استعمال کیے ۔ پہاڑوں میں غاروں میں پناہ لینے والے افغان جہادیوں کو ختم کر کے ان کا تورا بورا بنا دیا۔ دنیا کا سب سے بڑا بم جسے امریکا بہادر مدر آف بم کہتے ہیں سے بمباری کرتا رہا ہے۔

اس پاکستانی کی پارٹی جماعت اسلامی نے اپنی بساط کے مطابق مسلمانوں کے غم پاکستانی عوام اور امت مسلمہ تک دنیا کے سارے مظلوموں کے غم باٹنے میں اپنی کوششیں کرتی رہی ہے۔ کیا اب مدینہ کی اسلامی ریاست کی گردان دھرانے والی حکومت کواس کام کو نہیں کرنا چاہیے؟کیا پاکستانی عوام اور ملک کے مصنوعی وفادار بن کر قائد اعظم کی مسلم لیگ کے گھوڑے پر سوار ہوکر، حکومتیں کرنے والی لیڈر شپ کا یہ کام نہیںہے؟کیا پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کا یہ کام نہیں؟ یقینا سب کا کامً ہے۔ مگر ڈالر کی چمک اورسود در سود کی وجہ سے بذدلی نے ان کو امریکا کا حاشیہ بر دار بنا دیا ہے۔یہ حکمران اپنے اپنے دور میں پاکستان دشمنی میں امریکا کی مدد بھی کرتے رہے۔ ڈکٹیٹر کمانڈوپرویز مشرف، دشمن ملت، نے تو حد کر دی تھی۔چھ سو( ٦٠٠) مسلمانوں کو ڈالر کے عوض امریکا کو فروخت کیا۔ قوم کی بیٹی مظلومہ امت مسلہ ڈاکٹر عافیہ صدیقہ حافظ قرآن اور امریکامیں قرآن کی تعلیمات کو عام کرنے والی کو بھی ڈالر کے عوض تین محصوم بچوں سمیت امریکا کے حوالے کیا۔ جو اب بھی امریکا میںچھیاسی( ٨٦) سالہ بے گناہ قید کاٹ رہی ہے۔

صاحبو!کیا یہ سارے کام اس پاکستانی اور ان کی جماعت اسلامی کے ذمہ ہی ہیں؟۔ہاں !یہ پارٹی مسلمانوں کو ایک جسم سمجھتی ہیں۔ اگر اس کو تکلیف تو اسے اپنی تکلیف محسوس کرتی ہے۔ کیا مسلمانوں پر سارے دکھ اور مظالم پاکستان عوام اور امت ِ مسلمہ کے سامنے پیش کرنا صرف جماعت اسلامی ہی کے ذمہ ہیں؟ اللہ کرے ہم اپنے آپ کوپہنچانیں اور مسلم امت کے دکھوں کواپنا دکھ سمجھیں۔اپنے پڑوسی مسلمان ملک افغانستان کے طالبان ، جنہوں نے پورے یورپ اور امریکا کی صلیبی قوتوں کو صرف جہاد فی سبیل اللہ کے بل بوتے پر شکست عظیم دی ہے ۔اس میں ان کی خوشیاں میں برابر کے شریک ہو جائیں۔ہم سے اللہ سے معافی مانگیں۔ گنائوں سے توبہ کریں۔ اپنے اسلاف کی سنت ،جہاد فی سبیل اللہ پر عمل کریں۔ اسی جہاد فی السبیل اللہ سے کشمیر فلسطین آزاد ہوگا۔دنیا کے مسلمانوں کے دکھوں کا مداواسی ہی ہیں پنہاں ہے۔ اسی کی طرف رجوع کر کے اسلامی نشاة ثانیہ کی بنیار رکھی جاسکتی ہے ۔اپنے ایک پرانے کالم کے عنوان” کوہسار باقی افغان باقی ”کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ایک پاکستانی آپ سے اجازت چاہتا ہے ۔اللہ مثل مدینہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان