فلسطین کو بھارتی موقف پر تشویش کیوں ہے؟

Gaza

Gaza

فلسطین (اصل میڈیا ڈیسک) فلسطین نے اقوام متحدہ میں بھارتی موقف پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس موقف سے انسانی حقوق کی جنگ مزید کمزور پڑ جائے گی۔

فلسطینی اتھارٹی نے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے بھارت کی نئی پالیسیوں پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے میں بھارت نے جو رویہ اپنایا، وہ قابل افسوس ہے اور نئی دہلی کے اس موقف سے عالمی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت ماند پڑ سکتی ہے۔

27 مئی کو انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے ‘ہیومن رائٹس کونسل‘ نے غزہ سے متعلق ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں اسرائیل اور غزہ کے درمیان ہونے والی لڑائی کے دوران ممکنہ جنگی جرائم کی تفتیش کی بات کی گئی تھی۔ اس قرارداد میں اس تفتیش کے لیے ایک کمیشن تشکیل دینے پر بھی زور دیا گیا ہے۔

ماضی میں بھارت عام طور پر فلسطینیوں کی حمایت کرتا رہا ہے تاہم اس بار بھارت نے اس قرارداد کی حمایت کرنے کے بجائے ووٹنگ میں حصہ نا لیا اور واک آؤٹ کر گیا۔ فلسطینی خود مختار انتظامیہ نے بھارت کے اسی رویے پر شدید تنقید کی ہے اور اس سلسلے میں شکایت کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ کے نام ایک خط بھی لکھا ہے۔

یہ خط فلسطینی وزیر خارجہ ریاض مالکی نے اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے نام 30 مئی کو لکھا تاہم بھارتی میڈیا میں اس کی تفصیلات تین جون جمعرات کے روز شائع ہوئیں۔

ریاض مالکی نے لکھا، ’’انسانی حقوق کی کونسل میں 27 مئی 2021 کے 30 ویں خصوصی اجلاس کی آخری قرارداد پر بحث کے دوران بھارتی جمہوریہ نے جو رویہ اپنایا، اس پر اپنی تشویش کا اظہار کرنے کے لیے میں یہ خط لکھ رہا ہوں۔ یہ قرارداد مشرقی یروشلم اور اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے پیش کی گئی تھی۔‘‘

اس خط میں مزید کہا گيا ہے کہ یہ قرارداد کوئی نا پسندیدہ عمل نہیں بلکہ وسیع اور کثیرالجہتی مشاورتی ادوار کا نتیجہ تھی، ’’اقوام متحدہ کے ماہرین، انسانی حقوق کے ادارے اور بین الاقوامی تنظیمیں برسوں کی مستند اور مستحکم تفتیش کی بنیاد پر یہ ثابت کرتی رہی ہیں کہ اسرائیلی ریاست انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث رہی ہے اور وہ مؤثر احتسابی اقدامات سے بھی بچتی رہی ہے۔‘‘

’’اسی لیے آپ کی غیر حاضری سے، فلسطینیوں سمیت پوری انسانیت کے بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری اور اس عمل کو آگے بڑھانے کی کوششوں کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے۔‘‘

مالکی نے بھارت کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ اگر ان ناانصافیوں اور پامالیوں کی جڑوں تک پہنچ کر ان کے تدارک کی کوشش نا کی گئی، تو پھر حالات کبھی بہتر نہیں ہوں گے، ’’بلکہ پھر حالات مزید خراب ہوتے جائیں گے اور اس بات کے بہت دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔‘‘

ماضی میں عموماً یہ دیکھا گيا ہے کہ بھارتی حکومت اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے میں فلسطین کی حامی رہی ہے تاہم ہندو قوم پرست رہنما نریندر مودی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس میں کافی تبدیلی آ چکی ہے۔ بھارت اب ایک ایسی پالیسی پر گامزن ہے، جس کے تحت وہ اسرائیل کو کسی بھی حال میں نا خوش نہیں کرنا چاہتا۔

یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ غزہ اور اسرائیل کے مابین لڑائی اور اس حوالے سے بھارتی بیانات بڑے متوازن تھے، جن میں ایک طرف تو نئی دہلی نے فلسطین کی حمایت کی بات کہی تھی تو دوسری طرف اسرائیل کے خلاف بھی کچھ بھی کہنے سے گریز کیا تھا۔

جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل میں ووٹنگ سے پہلے جنرل اسبملی میں 16 مئی کو فلسطین سے متعلق جو اجلاس ہوا تھا، اس میں بھارتی مندوب نے کہا تھا، ’’میں فلسطین کے منصفانہ ہدف کی بھر پور حمایت کرتا ہوں اور اس تنازعے کے دو ریاستی حل کے لیے بھارت کے پختہ عزم کا اعادہ کرتا ہوں۔‘‘

لیکن اسی موضوع پر جب بیس مئی کو جنرل اسبملی کی دوسری نشست ہوئی، تو اسی بھارتی سفارت کار نے اپنے بیان میں سے ’’فلسطین کے منصفانہ ہدف کی مضبوط حمایت‘‘ والے الفاظ نکال دیے تھے۔

چند روز کے اندر اندر اتنی بڑی تبدیلی کی وجہ کیا تھی یا نئی دہلی پر کس قسم کا دباؤ تھا، اس حوالے سے بھارتی میڈیا میں کافی بحث ہوتی رہی ہے۔ خاص طور پر جب بھارت نے انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا، تب سے طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے مگر حکومت نے اب تک اپنی طرف سے کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔

گزشتہ چند برسوں سے عالمی سطح پر بھارت اسرائیل سے سب سے زیادہ ہتھیار اور دفاعی ٹیکنالوجی خریدتا رہا ہے۔ خاص طور پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کو کچلنے کے لیے اسرائیل نے بھارت کو نا صرف دفاعی ساز و سامان مہیا کیا بلکہ وہ بھارتی فورسز کو تربیت بھی دیتا رہا ہے۔ اسرائیل نے بھارت کو نا صرف سرحد پر رات کی تاریکی میں استعمال ہونے والے چشمے یا نائٹ وژن ڈیوائسز مہیا کیں بلکہ اس نے سرحدی نگرانی کے لیے بھارتی فورسز کی تربیت بھی کی۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھارت کے ایسے پہلے وزیر اعظم ہیں، جنہوں سے اسرائیل کا دورہ کیا اور وہ اکثر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے اپنی دوستی کی قسمیں بھی کھاتے رہتے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ جب حال ہی میں نیتن یاہو نے غزہ پر بمباری کی حمایت کے لیے مختلف ممالک کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ایک ٹویٹ کی، تو اس میں بھارت کا نام نہیں تھا۔ بھارتی میڈیا میں اس پر بھی کافی چہ مگوئیاں ہوئی تھیں۔

اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اسرائیل کے ساتھ گہری دوستی کے باوجود بھارت نے فلسطینی تنازعے کے دو ریاستی حل کی بھی کھل کر حمایت کی تھی۔ لیکن جب نیتن یاہو نے شکریہ ادا کرنے کے لیے بھارت کے سوا اسرائیل کے حامی باقی تمام ملکوں کے پرچم اپنی ٹویٹ میں شامل کیے، تو بھارت کو صورت حال سمجھ آ گئی تھی اور اس نے آناﹰ فاناﹰ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کا فیصلہ کر لیا تھا۔