یہ عوام کے ساتھ ہو کیا رہا ہے

Inflation

Inflation

تحریر : ایم سرور صدیقی

کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے رات کو گیدڑوں کی آوازیں سنی تو صبح وزیروں سے پو چھا کہ رات کو یہ گیدڑ بہت شور کررہے تھے۔کیا وجہ ہے؟۔اس وقت کے وزیر عقل مند ہوتے تھے۔انھوں نے کہا جناب کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہوگئی ہے اس لئے فریاد کررہے ہیں۔تو حاکم وقت نے آرڈر دیا کہ ان کیلئے کھانے پینے کے سامان کا بندوبست کیا جائے۔وزیر صاحب نے کچھ مال گھر بھجوادیا اور کچھ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کیا۔ اگلی رات کو پھر وہی آوازیں آئیں، تو صبح بادشاہ نے وزیر سے فرمایا کہ کل آپ نے سامان نہیں بھجوایا کیا،تو وزیر نے فوری جواب دیا کہ جی بادشاہ سلامت بھجوایا تو تھا۔اس پر بادشاہ نے فرمایا کہ پھر شور کیوں ؟۔تو وزیر نے کہا جناب سردی کی وجہ سے شور کررہے ہیں ،تو بادشاہ نے آرڈر جاری کیا کہ بستروں کا انتظام کیا جائے جس پر وزیر صاحب کی پھر موجیں لگ گئیں۔

حسب عادت کچھ بستر گھر بھیج دیئے اور کچھ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کیے۔جب پھر رات آئی تو بدستورآوازیں آنا شروع ہوگئیں تو بادشاہ کو غصہ آیا اور اسی وقت وزیر کو طلب کیا کہ کیا بستروں کا انتظام نہیں کیا گیاتو وزیر نے کہا کہ جناب وہ سب کچھ ہوگیا ہے تو بادشاہ نے فرمایا کہ پھر یہ شور کیوں ؟تو وزیر نے اب بادشاہ کو تو مطمئن کرنا ہی تھا اور اوکے رپورٹ بھی دینی تھی تو وہ باہر گیا کہ پتہ کرکے آتا ہوں ،جب واپس آئے تو مسکراہٹ لبوں پر سجائے آداب عرض کیا کہ بادشاہ سلامت یہ شور نہیں کررہے بلکہ آپ کا شکریہ ادا کر رہے ہیں اور روزانہ کرتے رہیں گے۔

بادشاہ سلامت یہ سن کے بہت خوش ہوا اور وزیر کو انعام سے بھی نوازا۔اب یہی حال ہمارے ملک کا بھی ہے ،ملازمین و عوام مہنگائی سے پریشان ہیں ،مگر یہاں رپورٹ سب اوکے دی جارہی ہے اور بادشاہ سلامت خوش ہیں۔ 05 فروری 2021 کواخبار میں افسوس ناک خبرپڑھی کہ لاہور کے علاقہ کاہنہ میں 12 سالہ بچے نے خود کشی کرلی بتایا گیاہے غربت نے 12 سالہ بچے ثقلین نے نئی پینٹ کی خواہش پوری نہ ہونے پر موت کو گلے لگا لیا، لخت جگر کی موت پر والدین غم سے نڈھال ہو گئے۔،بچے کے والد کا کہنا ہے کہ میرے چھ بچے ہیں اور ثقلین بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا جس کی عمر 12 سال تھی، میں بہت غریب آدمی ہوں،ثقلین نے مجھ سے نئی پینٹ کی خواہش کی تھی، میرے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہے ، نئی پینٹ کی خواہش کہاں سے پوری کرتا ؟ جس پر دلبرداشتہ ہو کر 12 سالہ ثقلین نے گلے میں پھندا ڈال کر موت کو گلے لگا لیا۔ ماں بچے کی تڑپ دیکھ کر ادھار پر پینٹ لائی لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

ایسے خودکشی کے واقعات تو پورے ملک میں افراط سے ہورہے ہیں عمران خان صاحب نے کہاتھاکہ سب کورلائوں گا،جب بھی یہ جملہ سنتے ہیں تو ذہن میں سوالات اٹھتے ہیں کہ آخر خان صاحب کس سے مخاطب تھے؟ کس کو رلانے کی بات کر رہے تھے؟ لیکن اب جب ملک کے موجودہ حالات کودیکھتے ہیں توخان صاحب کایہ جملہ اپوزیشن اورچوروں لٹیروں کیلئے نہیں تھابلکہ پاکستانی عوام کیلئے تھاجسے خان صاحب نے واقعی رلادیاہے لیکن ہمارے بادشاہ سلامت کے پاس زمینی حقائق دیکھنے یاعوام کی مشکلات پرتوجہ دینے کیلئے وقت ہی نہیں اوریہ بھی نہیں سوچاان کے تین سالہ دورحکومت میں مہنگائی کی ستائی عوام پرکیاگذررہی ہے اس کے برعکس ان کے وزیرباتدبیرسب اوکے کی رپورٹ دے رہے ہیں کہ اب عوام خوشحال ہوگئی ہے روزانہ عمران خان زندہ بادکے نعرے لگاتی ہے اب ان کے مسائل رہ ہی نہیں گئے یہ توصرف اپوزیشن کی کارستانی ہے جومسائل کاشورمچارہی ہے۔وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے پاکستان کے حالات اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے کہ لوگ بھوک بدحالی سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ،12سالہ غریب والدین کے معصوم بچے کی خودکشی کاذمہ دارکون ہے ؟ کیاحاکم وقت سے اس ناحق موت کاحساب نہیں لیا جائے گا؟ناجانے کیوں ہم من حیث القوم آخری ہدوں کوچھورہے ہیں۔

امریکہ میں جارج فلائیڈ کی موت نے ساری امریکن قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور پورا امریکہ نسل پرستی کے خلاف متحد ہوکے کھڑا ہوگیا اور حکومت کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا،لاطینی امریکہ کے ملک چلی میں ایک سٹریٹ سنگرکی ایک پولیس والے کے ہاتھوں ہلاکت پرپورے چلی میں عوام سڑکوں پر آگئے،ہمارے ملک میں کتنے بیگناہوں کوپولیس نے قتل کردیاگیا ساہیوال کا واقعہ کو زیادہ وقت نہیں گذرا ،سانحہ ماڈل ٹائون میں نہتے لوگوںکو گولیاں مارنے والوں کی ویڈیو سب کے سامنے ہیں ان کو شناخت بھی کیا جاسکتاہے ،بلوچستان کے ایک سابق وزیر نے ڈیوٹی پرمامور ٹریفک پولیس کے ایک جوان کو دن دیہاڑے کچل کر مار ڈالا ا کچھ ماہ پہلے کشمالہ طارق کے بیٹے نے چارنوجوانوں کو کچل ڈالا ،ہم یہ نہیں کہیں گے کہ گاڑی ڈرائیوکون کررہاتھا؟ مگر ہمارے حکمران شاید کسی بہت ہی بڑے سانحے کے انتظار میں ہیں ،حکمرانوں کویہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے جب عوام اپنے حقوق اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف کندھے سے کندھا ملا کر فسطائیت اور رجعت پسند حاکمیت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی توپھرانہیں روکنے والاکوئی نہیں ہوگااورخان صاحب کوسب اوکے کی رپورٹ دینے والے بھی کہیں نظرنہیں آئیں گے۔خان صاحب نے فرمایا تھا کہ جب ڈالر مہنگاہوتاہے تو سمجھ لو کہ آپ کا وزیراعظم چور ہے۔

آج الحمدللہ ان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ڈالر کے ریٹ میں کتنا اضافہ ہو چکا ہے لیکن پھر بھی وزیراعظم نہ چور ہیں نہ ڈاکو بلکہ صادق و امین ہیں، وہ فرماتے تھے کہ پیٹرول چالیس سے پینتالیس روپے کا ہونا چاہیے آج خدا کا شکر ہے کہ ان کی حکومت میں پیٹرول 125 روپے میں عوام لینے پرمجبورہے مگر وزیراعظم کو سلام ہے کہ وہ آج بھی خطے کے دیگر ممالک سے کم قیمت میں پیٹرول فراہم کرکے عوام پر احسانِ عظیم کر رہے ہیں۔عمران خان نے حکومت سنبھالی تو چینی 52 روپے کلو تھی آج ان کے دورحکومت میں خیر سے100روپے سے اوپرجاکر خان صاحب کے نوٹس لینے کی لاج رکھ چکی ہے، آٹا تیس روپے کلو ملتا تھا مگر چینی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے آٹے نے بھی اڑان بھری ،پہلے آٹاہے ہی نایاب اگرکہیں ملتاہے تو70سے 80روپے کلو،خان صاحب کے وزیرکہیں گے کہ ہم توعوام کو960روپے میں 20کلوگرام آٹے کاتھیلافراہم کررہے ہیں،تو جناب جوآٹاٹرالیوں میں لوڈکرکے عوام کو ساراسارادن لائن میں لگوا کر دیا جارہاہے اتناناقص کوالٹی کاہے جسے جانوربھی نہ کھائیں،پاکستان میں پہلی بارایماندارحکومت آئی ہے جس کے تمام معاملات کی رپورٹس اوکے ہیں۔خان صاحب کے دور حکومت میں بجلی، گیس سمیت اشیا ضروریہ کی قیمتیں بار باربڑھائی جارہی ہیں۔

خان صاحب نوٹس پر نوٹس لیکر قیمتوں میں مزید اضافے کا سبب بنتے جارہے ہیں اوراب توعوام یہاں تک کہہ اٹھی ہے خداراخان صاحب اب کسی چیزکانوٹس نہ لیں،ادویات کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں اب غریب عوام دوائی نہ خریدسکنے کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں مگرہمارے خان صاحب کوسب اوکے نظرآرہاہے اورمسلسل کہے جارہے کہ گھبرانانہیں۔عمران خان ماشااللہ اپنے فرمودات اور منشور کے مطابق پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں انہوں فرمایا تھا کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا، میں سب کو رلاں گااب پاکستانی عوام دیکھ رہی ہے کہ خان صاحب اپنے وعدے کے کتنے پکے نکلے کہ کسی کو بھی نہ چھوڑا دیہاڑی دار مزدور سے لیکر سرکاری ملازم، بیوروکریسی سے لیکر تاجر صنعتکار ہر امیر غریب سارے ملک ساری قوم کوہی صرف اپنے تین سالہ اقتدارمیں خون کے آنسو رلادیا ہے۔خان صاحب کے سنہری دورحکومت میں تعلیم کابیڑاغرق ہوگیاہے مہنگائی کی و جہ سے معصوم طالب علم سکول چھوڑ کر اپنااورگھروالوں کے پیٹ کادوزخ بھرنے کیلئے اپنے ننھے ہاتھوں سے مزدوری کرنے پر مجبورہوگئے ہیں ،بچوں کے سکول چھوڑنے کااعتراف وزیرتعلیم صاحب بھی کرچکے ہیں لیکن سوشل میڈیا میں تواتر سے آرہاہے ہمارے بادشاہ سلامت بنی گالہ میں سکون سے کتوں کیساتھ چہل قدمی کرتے دکھائی دیتے ہیں کوئی اس بات کی تردید بھی نہیں کرتا گورنر سندھ اپنے کتوںکے ساتھ سیرکرنے جاتے ہیں یہ عوام کے ساتھ ہوکیا رہاہے ؟ اب پنڈورا پیپرزنے جو پنڈورا کھول کر شرفاء کا کچہ چٹھہ چوراہے میں بے عزت کردیاہے اب کے خلاف کب ایکشن لیا جائے گا؟ بہرحال مخالفین اور ناقدین جو مرضی کہیں، یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حکومت کی” تاریخی” کامیابیوں کی ایک طویل فہرست ہے، عمران احمد خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر حکمرانوں کے بارے میں جو کچھ کہاتھا حکومت میں آ کر سب سچ ثابت کردکھایاہے سب کوواقعی رلادیاہے اورخان صاحب کے مشیرسب اوکے کی رپورٹ دیکرانہیں خوش کررہے ہیں اوراگلے پانچ سال کی بھی نوید سنارہے ہیں۔آخر میں ہم صرف یہی عرض کریں گے کہ خان صاحب وزیروں مشیروں کی فوج ظفرموج کے گھیرے باہر نکلئے اورحقیقت کاسامناکیجئے اور عوام کے مسائل کاادراک کیجئے ورنہ نہیں تاریخ کاحصہ بنتے دیر نہیں لگتی۔

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی