معذور لوگ اور سیاستدان

Politics

Politics

تحریر : ریاض احمد ملک

سیاست تو عبادت کا نام ہے اگر اسے عبادت سمجھا جائے تو مگر یہاں تو سیاست کسی کو بیوقوف بنانے کو کہا جاتا ہے جو الیکشن میں عوام کو سبز باغ دیکھا کر ووٹ حاصل کر کے چلتے بنتے ہیں میرا تعلق ضلع چکوال کے پسماندہ علاقے سے ہے پسماندہ میں اس لئے لکھ رہا ہوں یہاں کی زمین زرخیز ہے عوام قابل ہیں مگر،،،؟ کوئی گھر ایسا نہیں جس میں کم از کم تعلیم ایم ائے نہ ہو یہاں میری زندگی میں نہ جانے کتنے سیاست دانوں نے اپنے کرتب دیکھائے اور بعد میں ان لوگوں کو جھنڈی کرا دی میں صحافت سے وابسطہ ہوں مجھے علاقے کے لوگ کبھی خطاب دیتے ہیں میں مسلم لیگ ن کے لئے کام کرتا ہوں کبھی کہتے ہیں میں پیپلز پارٹی کا بندہ ہوں یہ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ آپ کو پسماندہ کا لفظ سمجھ آ جائے میرے گائوں کی آبادی 25ہزار سے زائد ہے یہاں کے باسی غریب کم اور خوشحال زیادہ ہیں۔

خوشحال کا لفظ بھی معنی خیز ہے ہمارے ہاں سڑکیں تباہ حال ہیں ہماریہاں ایک محلہ مدنی ترج ہے جہاں ہر سال سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور لوگوں کو لاکھوں توپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے مگر ہماری سوچ ایسی ہے کہ ہم یتیموں کی طرح سیاست دانوں کا منہ دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارا کام کتیں گے میں نے لکا ہے کہ ہماری آبادی 25ہزار سے زیادہ ہے 5000لوگوں کو چھوڑیں 20ہزارگھراس پوزیشن میں ہیں کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت کام کر سکتے ہیں اگر ہم ایک ہزار روپے فی گھر وصول کرتے ہیں تو وصول شدہ رقم سے ہمارا گائوں پیرس بن سکتا ہے سڑکیں کارپٹ ہو سکتی ہیں تالاب کا مسلہ حل ہو سکتا ہے تالاب ہی نہیں تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں مگر ہم 1500کی پانی کی ٹیکنکی تو منت کر کے لے لیتے ہیں 4سو واٹر سپلائی کو نہیں دے سکتے یہاں میرے دوست برا نہ منائیں مگر یہاں کے سیاست دانوں کے چمچے کڑچھے عوام کو اس لائن سے دور رکھتے ہیں یہاں کام ہو رہا ہو تو اسے روکنے کی کوشش کی جاتی ہیں خدا راہ عقل سے کام لیں چھوڑیں ان شریف لوگوں کا پیچھا اور اپنی مدد آپ کے تحت خوشحال زندگی بسر کریںاب مسلہ یہ پیدا ہوگا بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون اب اگر آپ میری سوچ پر آجائیں تو الیکشن میں کوئی سیاست دان تماری سڑک پر چڑھ کر تم تک آنے کی کوشش کرئے تو اسے یہ کہیں کہ سڑک اس کے باپ کی نہیں ہماری اپنی ہے مت ووٹ دیں ان لوگوں کو جو تمارے مسائل حل نہیں کر سکتے۔

یہ مسلہ کون سا اتنا برا ہے کہ ہم ہر الیکشن کے بعد سیاست دانون کے ڈیروں کے طواف کریں اوران کی خوشامد کریں چمچوں کے رزق پر ہے تو کاری ضرب مگر ہے مضبوری کہ جب تک عوام ان لوگوں کے تسلط سے نہیں نکلیں گے خوشحال ہر گز نہیں ہوں گے یہ مسلہ ہر اس علاقے کا ہے جو اس بیماری کا شکار ہیں پورے پاکستان میں یہی حال ہے میں نے مثال ایک علاقے کی دی ہے ایک سڑک ٹوٹ جائے تو یہ کئی کئی ماہ بنتی نہیں اور ہمارے زہنی معذور بھائی سیاست دانوں کا منہ دیکھتے رہتے ہیں کیا وہ اپنی مدد آپ کے تحت فوری یہ سڑک گلی بنا نہیں سکتے مگر نہ جانے کیوں وہ ایسی سوچ کیوں نہیںرکھتے یہ ساری تمہید میں نے کالج روڈ بوچھال کلاں کی تعمیر کا آغاز اور عوامی پراپگنڈہ کے بعد حیران ہو کر باندھی ہے اس سڑک سے روزانہ سیکڑوں گاڑیاں رکشے موٹر سائیکل وغیرہ گزرتے ہیں۔

اس روڈ کو بوچھال کلاں کا گلبرگ کہیں تو غلط نہ ہو گا اس روڈ پر ہر تعمیر ہونے والی کوتھی 2کروڑ سے کم لاگت کی نہیں مگر پچھلے دس سالوں سے اس سڑک کی حالت قابل رحم تھی اگر ہر آدمی اپنے گھر کے سامنے ٹف ٹائل لگوا کر نکاسی آب کے لئے نالہ بنوا دیتا تو یہ سڑک خوبصورت بھی ہوتی اور اس کا یہ برا حال بھی نہ ہوتا ہر کوٹھی کے سامنے تالاب نما جوہڑ ہوتا تھا اب ہمارے گائوں کے نوجوان ملک اظہر ایڈوکیٹ نے سردار آفتاب اکبرMPA سے یہ منصوبہ لے کر کام کا آغاز کرایا تو رنگ رنگ کی باتیں سننے کو ملیں کسی نے کہا سڑک کی پیمائش کم ہے کوئی کچھ کہتا ہے تو کوئی کچھ اب بھی اگر کوئی کام کر رہا ہے تو اسے کرنے دو ہم تو معزور ہیں کر نہیں سکتے کسی کو تو کرنے دو اب بھی وقت ہے میرے کہنے پر عمل کرو اور اپنی نسلوں کو ان روائتی سیاست دانوں کے چنگل سے ازاد کرائو ہم جسمانی نہیں ذہنی معذور ہیں اور سیاستدانوں نے ہمیں بیوقوف بنا کر ووٹ لیتے ہیں اور ہم مسائل کی دلدل میں پھسے ان کی راہیں دیکھتے ہیں۔

Riaz Malik

Riaz Malik

تحریر : ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
03348732994
malikriaz57@gmail.com