استقامت کا جوہر

Justice Faiz Issa

Justice Faiz Issa

تحریر : طارق حسین بٹ شان

جسٹس قاضی فائز عیسی کے تاریخی فیصلہ کے بعدہر روز ایک نیا پنڈورہ باکس کھل رہا ہے۔ہونا تو یہ چائیے تھا کہ قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرینس دائر کرنے والے مستعفی ہو کر اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے اور آ ئیندہ ایسا کرنے سے توبہ کرتے لیکن ایسا کرنے کی بجائے وہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کا پیکر بنے ہوئے ہیں ۔وہ ہر روز کوئی نہ کوئی نیا بیان داغ کر اپنی ذات پر لگا یہ دھبہ مٹانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان سے بات بن نہیں پا رہی کیونکہ ریفرنس دائر کرنے والے حکومتی کردار دن دہا ڑے برہنہ ہو رہے ہیں ۔سازش کو کوئی بھی نام دے لیا جائے وہ سازش ہی رہتی ہے۔ہمارے معاشرے میں جھوٹ اور سچ ایک دوسرے میں یوں سرائیت کر چکے ہیں کہ سچ کی پہچان ہی مٹتی جا رہی ہے ۔گوبل کا یہ نظریہ کہ اتنا جھوٹ بولو کہ وہ سچ نظر آئے ہمارے ہاں بھی مستعمل ہو چکاہے اور ہم ہمہ وقت جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر کمر بستہ ہیں۔اب تونوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پارسا اور گنہگار ایک صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ سچے اور جھوٹے میں تمیز مٹتی جا رہی ہے ۔ جسے دیکھو جھوٹ کی لاٹھی تھامے چلا جا رہا ہے ۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ جھوٹ پر کھڑا ہے اور جھوٹ کا سہارا لینے والا صاحبِ عزت و توقیر قرار پا رہا ہے۔جھوٹ کی ساری قسمیں ہمارے ہاں رائج ہیں۔کسی کے منہ سے اگر کسی وقت بالارادہ سچ نکل بھی جائے تو اس پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتا کیونکہ جھوٹوں کی بستی میں سچ کا اظہار بڑے اچھنبے کی بات ہوتی ہے۔ایک وقت تھا کہ لفظ کی حرمت تھی،کردار کی عظمت تھی ،سچ کی اہمیت تھی لیکن اب ذاتی مفادات کی خاطر لفظ کو یوں رسوا کیا گیا ہے کہ یہ اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔قاضی فائز عیسی کی شہرت ایک سچے،بہادر،ایماندار ، نڈر اور بے باک جج کی ہے لہذا ان کے خلاف حکومت جو بھی راہ اپنائے گی رسوائی ہی سمیٹے گی ۔پوری قوم قاضی فائز عیسی کے پشت پر کھڑی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قوم کو قاضی فائز عیسی سے بڑی توقعات وابستہ ہیں اور وہ انھیں آزاد عدلیہ کا استعارہ گردانتے ہیں ۔،۔

وزیرِ اعظم کے مشیرِ احتساب شہزاد اکبر آجکل میڈیا کی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔انھیں اس سے قبل براڈ شیٹ میں کمیشن کھانے کے الزامات کا سامنا تھا جس کا وہ کوئی معقول جواب ابھی تک پیش نہیں کر سکے۔حکومتِ پاکستان کے خزانے کو ان کی نا اہلی کی وجہ سے اربوں روپوں کا جو نقصان اٹھانا پڑا اس کا حساب ا ن سے ایک د ن ضرور لیا جائے گا ۔سدا بادشاہی تو کسی کی بھی نہیں رہتی لہذا جب وہ تحت سے اتریں گے تو انھیں لگ پتہ جائے گا ۔کل کے شہنشاہ آج عدالتوں میں گھسیٹے جا رہے ہیں اور آج کے شہنشاہ کل عدالتوں میں گھسیٹے جائیں گے لیکن وہ لوگ جن کے دامن پر کوئی دھبہ اور آنچ نہیں ہو گی وہی سر خرو ہو سکیں گے لیکن یہ سرخروئی آسان نہیں ہوتی۔ شہزاد اکبر دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے میں بڑی شہرت رکھتے ہیں۔

وہ الزا مات لگانے اور کاغذ ہوا میں لہرانے کے فن میں بھی یکتا ہیں۔ان کا کام الزامات لگانا اور اور مخالفین کا ناطقہ بند کرنا ہے جسے وہ بڑی خوش اسلوبی سے نبھا رہے ہیں ۔وہ اپنے مخالفین کو چن چن کر نشانہ بناتے ہیں لیکن کارکردگی صفر بٹہ صفر ہے۔لیکن جب بھی سوال ان کی اپنی ذات کا آتا ہے تو وہ پہلو تہی کر جاتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ شہزاد اکبر نے کتنا لوٹا ہوا پیسہ قومی خزانہ میں جمع کروایا ہے؟کتنا دھن باہر سے واپس لائے ہیں؟کس مخالف پر جرم ثابت کیا ہے ؟کسے سزا سنوائی ہے؟ کسے عبرت کا نشان بنایا ہے ؟ ہاں وہ لوگوں کے عزت و وقار سے ضرور کھلواڑ کرتے ہیں۔حیلے بہانوں سے مخالفین کو جیل یاترہ بھی کرواتے رہتے ہیں لیکن پھر عدالتیں سب کچھ الٹ پلٹ کر دیتی ہیں کیونکہ سارے مقدمات بد نیتی اور انتقام کا شاخسانہ ہوتے ہیں ۔عدالتیں گواہ،شہادتیں ، کاغذات اور ثبوت مانگتی ہیں لیکن جب نیت ہی کھوٹی ہو تو عدالتوں میں ثبو ت کہاں سے آئیں گے ؟ نیب کے کالے قانون کا استعمال ہی حکمرا نوں کی اصل طاقت ہے جس کے بے دریغ استعمال پر عدالتیں بھی برہم ہیں۔ریاست کا شہری ہونے کے ناطے ہر شخص واجب التکریم ہوتا ہے۔

عدالتوں کا کام ریاست کے شہریوں کیلئے انصاف کو یقینی بنانا ہو تا ہے۔ملزمان کے خلاف ثبوتوں کی عدم موجودگی نے عدالتوں کو برہم کر کھا ہے ۔ججز کے سخت اور تندو تیز جملوں سے حکومتی وکیل شرمندہ ہوتے ہیں، معذرت خوانہ رویہ بھی اپناتے ہیں لیکن پھر حکومتی ایماء پر اگلے روز نئے مقدمہ کے ساتھ عدالت کے سامنے حاضر ہو جاتے ہیں ۔ عدالت کسی کو مقدمہ قائم کرنے سے تو روک نہیں سکتی لیکن مقدمہ بنانے والوں کی بدنیتی پر انھیں ڈانٹ ڈپٹ ضرور سنا تی رہتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اس حمام میں سارے ننگے ہیں۔یہ کھیل ایسے ہی جاری و ساری رہنا ہے اور بد نیتی اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ فرمارہنی ہے کیونکہ ہم نے جھوٹ کو اپنا امام بنا رکھا ہے ۔ معاشرہ بد نظمی ، بد انتظامی اور انتشار کا نمونہ بنا ہوا ہے جس سے گلو خلاصی انتہائی ضروری ہے لیکن ایسا قائد نظر نہیں آ رہا جو جھوٹ سے ہماری جان چھڑوا کر سچ کا پیروکار بناسکے اور اس منزل کی جانب ہماری رہنمائی فرما سکے جوقیامِ پاکستان کی بنیاد تھی ۔،۔

ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر بشیر میمن کے حالیہ انکشافات نے ریاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔انکشافات کی شدت اتنی شد ید تھی کہ وزیرِ اعظم کو خود ان الزامات کی تردید کرنی پڑی ۔ تردید کرنے سے کیا الزامات کی صداقت ختم ہو جاتی ہے؟پاکستان میں مخالفین ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کا آسان ہدف رہے ہیں۔ان کی گردنوں پر قانون کا شکنجہ کسنا اور انھیں زندانوں کے حوالے کرنا معمول کے واقعات ہیں جن سے ہماری تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کے پاس یہی تو حربے ہیں جن کی مدد سے وہ مختلف گروہوں کو اپنے طابع فرمان بنائے رکھتے ہیں۔ا یف آئی اے کا ڈائریکٹر جھوٹے مقدمات قائم نہیں کریگا تو پھر کیا کریگا ؟وزیرِ اعظم کے تابع ہونے کے ناطے اسے یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے ۔

اب اگر اس نے کسی مصلحت کی وجہ سے یہ راز اگل دیا ہے کہ مجھ پر وزیرِ اعظم کی جانب سے مخالفین پر مقدمات قائم کرنے کا دبائو تھا تو اس پر کسی کو حیران نہیں ہونا چائیے ۔سابقہ حکومتیں بھی یہی کچھ کرتی رہی ہیں اور موجودہ حکوت بھی یہی کچھ کر رہی ہے۔حرکات نہیں بدلیں صرف چہرے بدلے ہیں۔کل کے حکمران آج ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔انھیں خوب علم ہے کہ مقدمات کیسے بنتے ہیں اورمخالفین کو کیسے رگیدا جاتا ہے؟پی پی پی کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا گیا؟ آصف علی زرداری کس طرح گیارہ سالوں تک جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں کے اندر محبوس رہے؟ کس طرح انھیں اذیتیں دی گئیں؟ کس طرح ان پر تشدد کیا گیا؟ کس طرح ان کی زبان کاٹنے کی کوشش کی گئی؟ کس طرح ان کو ڈرایا دھمکایا گیا ؟کس طرح انھیں بلیک میل کیا گیا۔ ایک ایسی داستان ہے جس کے ایک ایک پنے پر جرات و بہادری کی انمٹ نقوش ثبت ہیں۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آصف علی زرداری کو احتساب سے بالا تر کر دیا جائے، ان سے منی لانڈرنگ اور کالے دھن کا حساب نہ لیا جائے لیکن سوال یہ ہے کہ آصف علی زرداری کا احتساب کب تک جاری رہیگا ؟آصف علی زرداری کی سیاست سے اختلاف کرنے کا سب کو حق ہے لیکن اس ایک بات پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں کہ اس نے مخالفین کی جیلیں جی داری اور جانبازی کے ساتھ جھیلیں۔ابتلائو آزمائش کی ایسی نا قابلِ برداشت گھڑیوں نے ہی اس کے اندر مفاہمتی سیاست کا پودا پروان چڑھایا۔آصف علی زرداری کا دھیما لہجہ،صبرو برداشت اور استقامت کا جوہر ہی اس وقت پاکستانی سیاست میں امید کی کرن ہے ۔ معاشرے میں لڑائی جھگڑے ،دھینگا مشتی، انتشار اور عدمِ برداشت کا جوچلن عام ہو رہا ہے اس میں اتحاد کی اشد ضرورت ہے اور شائد آصف علی زرداری کی مفاہمتی سیات ہی قوم کو متحد کرنے کا باعث بن جائے ۔ماضی اس پر شاہد ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ ایک زرداری سب پہ بھاری ایسے ہی تو نہیں کہا گیا۔،۔

Tariq Hussain Butt

Tariq Hussain Butt

تحریر : طارق حسین بٹ شان
(چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال۔۔